اسلام آباد کانفرنس میں گدھے کو قومی سرمایہ قرار دینے کا مطالبہ

 

 

 

اسلام آباد میں منعقد ہونے والی ایک "گدھا کانفرنس’ میں شہباز شریف حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ گدھے کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے اس جانور کو پاکستان کا معاشی اثاثہ قرار دیا جائے۔ پاکستان میں گدھے کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے بھی اسے حقیر جانور کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

 

ڈونکی ڈویلپمنٹ فورم کے زیر اہتمام ایک فائیو سٹار ہوٹل میں ہونے والی کانفرنس میں مقررین کا کہنا تھا کہ دیہات کی کچی پگڈنڈیوں سے لے کر شہروں کے گلی کوچوں تک، محنت کش گدھا وہ بوجھ اٹھاتا رہا ہے جو انسانوں کے بس سے باہر ہوتا ہے۔ انکا کہنا تھا کہ کسان کے لیے فصلیں ڈھونے سے لے کر اینٹوں اور پانی کی ترسیل تک گدھا ہمیشہ ہی جُتا ہوا نظر آیا۔ پاکستان میں جب بھی اقتصادی سروے میں گدھوں کی تعداد کا ذکر آتا ہے تو ہنسی مذاق کا موضوع بن جاتا ہے اور اخبارات اور ٹی وی چینلز اس کو فکاہیہ خبر کے طور پر ہی شائع یا نشر کرتے ہیں۔  مگر اسلام آباد کے ایک معروف ہوٹل میں ہونے والی ایک تقریب میں گدھے کے بارے میں اس تصور کو بدلنے کی سنجیدہ کوشش کی گئی۔

 

ڈونکی ڈیویلپمنٹ فورم کے پلیٹ فارم سے ہونے والی اس انوکھی کانفرنس میں چین اور پاکستان کے نمائندوں کی تقاریر نے اس حقیقت کو اجاگر کیا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ گدھے کو صرف محنت کش جانور نہیں بلکہ ’معاشی اثاثہ‘ مانا جائے۔

یہ کانفرنس دراصل پاکستان اور چین کی کمپنیوں، وزارتِ غذائی تحفظ کے حکام اور دیگر متعلقہ محکموں کی مشترکہ کاوش تھی جس کا مقصد گدھوں کی افزائش، بہتر پرورش، بیماریوں سے بچاؤ، خوراک اور پھر انہیں کاروباری مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے امکانات کا جائزہ لینا تھا۔ خاص طور پر اس بات پر زور دیا گیا کہ گدھوں کی کھال اور گوشت عالمی مارکیٹ میں کس طرح برآمد کر کے پاکستان کے لیے زرِمبادلہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔

 

ڈونکی کانفرنس کے اختتام پر ایک مفصل ’اعلامیہ‘ بھی جاری کیا گیا جس میں گدھوں کو ذبح کرنے اور ان کی مصنوعات کی سمگلنگ روکنے کا عہد کیا گیا اور یہ طے پایا کہ صرف قانونی، رجسٹرڈ اور شفاف طریقے سے اس صنعت کو فروغ دیا جائے گا۔  اس کے علاوہ پائیداری اور منصفانہ تجارت پر زور دیتے ہوئے کہا گیا کہ مقامی گدھوں کے جینیاتی وسائل کو محفوظ بنایا جائے گا اور کسی بھی غیرذمہ دارانہ تجارتی سرگرمی کی حوصلہ شکنی کی جائے گی۔

 

پاکستان کی مقامی ثقافت اور مذہبی حساسیت کو مدِنظر رکھتے ہوئے ڈونکی کانفرنس کے دوران یہ بھی واضح کیا گیا کہ پاکستان میں گدھوں کی کھال سے تیار کردہ مصنوعات مقامی مارکیٹ میں فروخت نہیں کی جائیں گی اور اگر انہیں ذبح کیا بھی جائے گا تو ایسا ماہر افراد کے ذریعے ہوگا تاکہ انہیں کم سے کم تکلیف ہو۔

 

کانفرنس میں شریک ہونے والے ایک چینی وفد کے سربراہ کا کہنا تھا کہ انکے ملک میں گدھے کو ایک بہت قیمتی اور عقلمند جانور تصور کیا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’گدھوں کی افزائش ایک ایسا شعبہ ہے جو کسانوں کی آمدنی بڑھانے اور ترقی کے نئے مواقع پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ چین نے اس صنعت کو جدید خطوط پر استوار کرنے میں نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں جبکہ پاکستان کے پاس دنیا کے بڑے ڈونکی وسائل موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ فورم چین اور پاکستان کے درمیان جینیاتی افزائش، بیماریوں سے بچاؤ، پراڈکٹس کی پروسیسنگ اور معیار کے حوالے سے تعاون کو فروغ دے گا۔

 

چینی وفد کے سربراہ کا کہنا تھا کہ انکے ملک میں براہ راست گدھے کی کھال سے بننے والی مخصوص مصنوعات  تیار کی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ گدھے کی کھال کو کاسمیٹک پراڈکٹ کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ انکے مطابق پاکستان جیسے ممالک میں گدھوں کی افزائش کے وسیع امکانات ہیں، اور اگر اس عمل کو منظم اور سائنسی بنیادوں پر استوار کیا جائے تو پاکستان عالمی سطح پر گدھوں کی ایک بڑی سپلائی چین کا حصہ بن سکتا ہے۔ یہ بھی بتایا گیا کہ سی پیک کے تحت پاکستان میں ’اوورسیز چراگاہیں‘ تعمیر کی جا رہی ہیں، جہاں گدھوں کی افزائش اور انڈسٹریل پروسیسنگ کو جدید خطوط پر استوار کیا جائے گا۔

کانفرنس کے شرکاء کا کہنا تھا کہ پاکستان کے دیہی علاقوں میں لاکھوں خاندان ایسے ہیں جن کے لیے گدھے آمدورفت اور مزدوری کا واحد ذریعہ ہیں۔ اگر یہ منصوبے عملی شکل اختیار کر لیتے ہیں تو ان کے لیے نئی روزگار کی راہیں کھل سکتی ہیں۔ یوں کسان نہ صرف اپنی زمین پر پیداوار لے سکیں گے بلکہ اپنے پالتو جانور کو عالمی مارکیٹ کے ساتھ جوڑنے کے قابل بھی ہو جائیں گے۔

Back to top button