سپریم کورٹ میں سپر ٹیکس کی آئینی حیثیت پر بحث، جسٹس مندوخیل کے اہم سوالات

سپریم کورٹ کے پانچ رکنی آئینی بینچ کے رکن جسٹس جمال خان مندوخیل نے دورانِ سماعت سوال اٹھایا ہے کہ کیا قومی اسمبلی کو آئین کے تحت یہ اختیار دیا جا سکتا ہے کہ وہ مالی سال سے ہٹ کر بھی ٹیکس سے متعلق قانون سازی کرے؟
رپورٹ کے مطابق جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں قائم آئینی بینچ نے منگل کو انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کی دفعہ 4سی میں ترمیم کے خلاف ٹیکس دہندگان کی جانب سے دائر درخواستوں کی سماعت کی، جو ٹیکس سال 2023 پر لاگو ہوتی ہے۔
فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے وکیل سینئر ایڈووکیٹ حافظ احسان احمد کھوکھر نے مؤقف اپنایا کہ یہ معاملہ قومی اسمبلی کی قانون سازی کی اہلیت سے متعلق نہیں بلکہ ٹیکس قوانین کے درست نفاذ کا سوال ہے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل چوہدری عامر رحمٰن نے عدالت کو بتایا کہ وفاقی حکومت چند دنوں میں اپنا تحریری جواب جمع کرا دے گی۔
یاد رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ نے 4 اپریل 2024 کو فنانس ایکٹ 2023 کے تحت ترمیم شدہ دفعہ 4سی کے مطابق ٹیکس کی ادائیگی جاری رکھنے کی ہدایت دی تھی۔
سپر ٹیکس کا پس منظر
سپر ٹیکس پہلی بار 2015 میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے متعارف کرایا تھا۔ یہ اُن افراد، ایسوسی ایشنز اور کمپنیوں پر لاگو ہوتا ہے جن کی آمدن 50 کروڑ روپے سے زیادہ ہو۔ اس کے تحت بینکنگ کمپنیوں پر 4 فیصد اور دیگر شعبوں پر 3 فیصد ٹیکس عائد کیا گیا، تاکہ بے گھر ہونے والے افراد کی بحالی کے اخراجات پورے کیے جا سکیں۔
ایف بی آر کا مؤقف
حافظ احسان احمد کھوکھر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 77 کے تحت ٹیکس عائد کرنے کا اختیار صرف پارلیمنٹ کو حاصل ہے۔ ان کے مطابق 2015 اور 2022 کے فنانس ایکٹس کے ذریعے سپر ٹیکس عائد کرنا مالی اختیارات کے درست استعمال کی مثال ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ دفعہ 4 بی کے تحت لگائے گئے سپر ٹیکس کو تمام ہائی کورٹس پہلے ہی درست قرار دے چکی ہیں، اور ڈبل ٹیکسیشن یا آئین کے آرٹیکل 25 کی خلاف ورزی جیسے نکات وفاق کے حق میں طے ہو چکے ہیں۔
ایف بی آر کے وکیل کے مطابق، سپر ٹیکس کوئی علیحدہ ٹیکس نہیں بلکہ انکم ٹیکس کا اضافی حصہ ہے جو صرف زیادہ آمدن والوں پر لاگو ہوتا ہے۔ یہ سرچارج یا ایڈوانس ٹیکس کی طرح ہے اور اس کی آئینی حیثیت متنازع نہیں ہونی چاہیے۔
