پیپلز پارٹی اور نون لیگ کی جنگ سے اسٹیبلشمنٹ پریشان

وزیراعلی پنجاب مریم نواز کی جانب سے پیپلز پارٹی اور سندھ حکومت کے خلاف لفظی گولہ باری سے دونوں اتحادیوں کے مابین بڑھتی ہوئی کشیدگی نے اسٹیبلشمنٹ کو پریشان کر دیا ہے چونکہ بلاول بھٹو اس بار نون لیگ کی بدزبانی آسانی سے معاف کرنے پر آمادہ دکھائی نہیں دیتے۔
بلاول بھٹو کی جانب سے حتمی فیصلے کے لیے پیپلزپارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس طلب کرنے کے بعد وزیر داخلہ محسن نقوی سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق اور ڈپٹی وزیراعظم اسحاق ڈار کو لے کر صدر آصف زرداری سے ملاقات کے لیے نواب شاہ پہنچ گئے۔ ملاقات میں دونوں اطراف نے کشیدگی کم کرنے پر اتفاق تو کیا ہے لیکن بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس ملاقات میں شریک چاروں سیاستدان حکومت کا حصہ تھے جبکہ پیپلز پارٹی کے چیئر پرسن بلاول بھٹو اس میٹنگ میں شریک نہیں ہوئے۔ ایسے میں دونوں اطراف سے کوئی ایک مزید بیان بھی معاملات کو بگاڑ سکتا ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کا موجودہ ہائبرڈ سیٹ اپ اس لیے ایک پیج پر ہے کہ عمران خان کے سبھی مخالفین اس میں حصے دار ہیں۔ موجودہ سیاسی ڈھانچے کے تین بڑے سٹیک ہولڈرز یعنی مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور اسٹیبلشمنٹ کے باہم جڑے رہنے کی بڑی وجہ عمران خان ہیں۔ لہذا تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ جس روز عمران خان مائنس ہو گئے اس روز یہ تینوں اتحادی بھی بکھر جائیں گے۔
سینیئر صحافی اور تجزیہ کار انصار عباسی کا کہنا ہے کہ عمران خان نہ تو پیپلز پارٹی، مسلم لیگ نون اور فوج سے لڑائی ختم کرنا چاہتے ہیں اور نہ ہی یہ تینوں تحریک انصاف کے بانی پر اعتماد کرنے کو تیار ہیں۔ان تینوں میں سے کوئی ایک فریق بھی الگ ہوا تو عمران خان طاقتور ہو جائیں گے اور موجودہ نظام دھڑام سے زمین بوس ہو جائے گا۔ واضح رہے کہ 9 مئی 2023 کو ملک بھر میں فوجی تنصیبات پر حملوں کی منصوبہ بندی کرنے والے عمران خان فوجی اسٹیبلشمنٹ کے لیے کسی صورت قابل قبول نہیں۔ یہی وہ بنیادی وجہ ہے جسکے باعث موجودہ سیاسی نظام وجود میں آیا، جس میں ن لیگ اور پیپلز پارٹی کو اقتدار میں حصہ دیا گیا۔ اس بندوبست میں کسی ایک جماعت کا حکومتی بینچوں سے علیحدہ ہونا صرف نظام کے خاتمے ہی کا نہیں بلکہ اس جماعت کے اپنے اقتدار کے خاتمے کا بھی باعث بنے گا، اور ظاہر ہے اسٹیبلشمنٹ کبھی بھی ایسا نہیں چاہے گی۔
لہذا پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے اختلافات ختم کروانے کی ذمہ داری وزیر داخلہ محسن نقوی کے ذمے لگائی گئی جنہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کے قریب خیال کیا جاتا ہے۔ تجزیہ کاروں کا اتفاق ہے کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی اگر آج حکومتی اتحادی ہیں تو اس کی بنیادی وجہ عمران خان ہیں۔ دونوں اتحادی جماعتیں خوش ہیں کہ عمران خان مسلسل اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ جنگ کو ہوا دیتے جا رہے ہیں۔ یہی لڑائی ہے جسکی وجہ سے وہ دو برس سے جیل میں قید ہیں، اور ان کی جماعت مسلسل مشکلات کا شکار ہے۔ اسی لڑائی کی بدولت ن لیگ اور پیپلز پارٹی کا اقتدار مضبوط اور مستحکم ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بظاہر عمران خان کا وجود ہی ان دونوں جماعتوں کیلئےاقتدار کی سب سے بڑی ضمانت بن چکا ہے۔ تحریک انصاف کے اندر بھی اس حقیقت کا بخوبی ادراک موجود ہے۔ پارٹی رہنما جانتے ہیں کہ ان کی قیادت کا ہر محاذ آرائی پر مبنی قدم دراصل ان کے اپنے نقصان کا سبب بن رہا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ عمران خان اگر فوج کے ساتھ نہیں تو کم از کم پیپلز پارٹی کے ساتھ ہی معاملات بہتر کر لیں لیکن عمران خان نہ کسی کی سنتے ہیں اور نہ ہی اپنی زبان بند رکھتے ہیں۔ وہ مسلسل فوج مخالف جارحانہ بیانہ آگے بڑھا رہے ہیں، جس سے نقصان صرف ان کی جماعت اور خود ان کو ہی ہو رہا ہے۔ چنانچہ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان کشمکش کسی بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہو گی تو وہ خوش فہمی میں مبتلا ہے۔
مریم نوازپیپلزپارٹی مخالف بیانات سےآگ کیوں بھڑکارہی ہیں؟
سینیئر صحافی انصار عباسی کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی اور نون لیگ کی لڑائی سے نہ تو نظام کو کوئی نقصان پہنچے گا اور نہ ہی کسی نئی سیاست کا دروازہ کھلے گا۔ آنے والے دنوں میں دونوں جماعتوں کی اعلیٰ قیادت ایک میز پر بیٹھے گی، تمام گلے شکوے دور کر کے معاملات طے کرے گی اور سیاسی تعاون کی نئی راہیں تلاش کر لے گی۔ ان حالات میں، اگرچہ منطقی طور پر ن لیگ اور پیپلز پارٹی کو عمران خان کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ وہ ان کے اقتدار کو طویل اور محفوظ بنا رہے ہیں، لیکن ظاہر ہے وہ ایسا نہیں کریں گے۔ وہ اقتدار کے مزے لوٹتے رہیں گے، نظام اسی طرح قائم و دائم رہے گا اور عمران خان اپنی ضد اور بیانیے کے بوجھ تلے جیل میں ہی ڈٹے رہیں گے۔ پاکستان کی سیاست کا المیہ بھی شاید یہی ہے کہ ایک شخص جسے نظام کے لیے خطرہ سمجھا گیا، اسی کی موجودگی نے اس نظام کو مضبوط ترین کر دیا ہے۔
