بالآخر جمود ٹوٹ گیا، پاکستان کی IMF سے ڈیل ہوگئی

شنید ہے کہ وفاقی بجٹ کی منظوری سے پہلے آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کو قرض کی اگلی قسط جاری کیے جانے کا امکان ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ بجٹ کی منظوری سے قبل آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ہونا ضروری ہے کیوںکہ اس کے بعد بجٹ میں ردوبدل کرنا مشکل ہو گا۔

فواد چودھری کو حنا ربانی کھر پر تنقید مہنگی کیسے پڑی؟

وزیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل نے بھی دعویٰ کیا ہے کہ آئی ایم ایف سے قرض کی نئی قسط کے حصول کے لیے معاملات ایک سے دو روز میں حل ہوجائیں گے۔ باخبر حلقوں نے بتایا کے کہ فریقین کے درمیان ڈرافٹ معاہدے کو اب حتمی شکل دی جارہی ہے۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ ایک بار بجٹ منظور ہونے کے بعد اس میں کسی قسم کی تبدیلی حکومت کے لیے شرمندگی کا باعث ہو گی۔

حکومتی ذرائع کے مطابق حکومت کی کوشش ہے کہ وہ اس ماہ کے آخر تک بجٹ منظور کرانے سے قبل آئی ایم ایف کو قائل کرلے جس سے غیر یقینی کی فضا کا بھی کسی حد تک خاتمہ ہو گا اور مارکیٹ میں بھی اچھا پیغام جائے گا۔ اس حوالے سے پاکستان کے مرکزی بینک اور آئی ایم ایف کے درمیان کسی وقت مفاہمت کی یادداشت فائنل ہونے کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے جس سے اسٹاف لیول معاہدے کی راہ ہموار ہوسکے گی۔ پاکستان کو درپیش سنگین معاشی بحران کے حل اور اس کے ساتھ بین الاقوامی ادائیگیوں کے لیے آئندہ سال کے اختتام تک 40 ارب ڈالر کی خطیر رقم درکار ہے جب کہ اس وقت پاکستان کے غیر ملکی زرِمبادلہ کے ذخائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں۔

اسٹیٹ بینک کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق ملک کے مرکزی بینک کے پاس 16 جون کو صرف آٹھ ارب 98 کروڑ ڈالرز کے ذخائر تھے۔ آئی ایم ایف سے جاری پروگرام کے تحت نظر ثانی مکمل ہونے کے پاس پاکستان کو فنڈ سے تقریبا 90 کروڑ ڈالرز ملنے کی توقع ہے۔ آئی ایم ایف کے بعد دیگر مالیاتی اداروں سے بھی مزید قرض ملنے کے ساتھ دوست ممالک بشمول سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین کی جانب سے بھی مزید قرض کا حصول ممکن ہوسکے گا۔ معاشی ماہرین کے خیال میں اسلام آباد کو کسی حد تک اپنے معاشی مسائل پر قابو پانے کے ساتھ ساتھ قرضوں کی واجب الادا اقساط ادا کرنے میں بھی سہولت ملے گی۔

معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی بگڑتی ہوئی معاشی صورتِ حال میں آئی ایم ایف کے ساتھ پروگرام میں دوبارہ جلد از جلد شامل ہونا ناگزیر ہوچکا ہے۔ ادھر ملک میں ڈالر کی طلب مسلسل بڑھتی جارہی ہے جس کے مقابلے میں رسد کم ہونے کی وجہ سے امریکی ڈالر کی قیمت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ معاشی ماہر اور سابق سیکریٹری خزانہ وقار مسعود کا کہنا ہے کہ انہیں امید ہے کہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان اب معاملات طے ہوجائیں گے کیونکہ ان کے خیال میں حکومت نے فنڈ کی بیشتر تجاویز پر عمل درآمد کرد یا ہے۔ بالخصوص پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں پر دی جانے والی سبسڈی حکومت نے واپس لے لی ہے۔

وقار مسعود کامزید کہنا تھا کہ اس وقت پاکستان کے لیے آئی ایم ایف پروگرام میں جلد شمولیت ضروری ہو چکی ہے۔ ملک کو درپیش معاشی صورتِ حال میں یہ دیکھنا ضروری ہے کہ اسمبلی میں پیش کردہ بجٹ، آئی ایم ایف کی ہدایات سے مطابقت رکھتا ہے یا نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے پیش کردہ بجٹ میں خسارے کا تخمینہ آئی ایم ایف سے طے پائے گئے معاملات سے کہیں زیادہ ہے جب کہ ملکی جی ڈی پی کے مقابلے میں ٹیکس کی شرح بڑھنے کا بھی کوئی امکان نظر نہیں آتا۔
وقار مسعود کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ پرسنل انکم ٹیکس کی شرح بڑھائی جائے لیکن حکومت نے ٹیکس بڑھانے کے بجائے بجٹ دستاویز میں اسے مزید کم کردیا ۔ ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ حکومت نے پیٹرولیم لیوی سے 600 ارب روپے حاصل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا لیکن وہ صرف 135 ارب روپے جمع کرپائی۔ ایسے میں موجودہ حکومت کی جانب سے 750 ارب روپے کی پیٹرولیم لیوی کے حصول کا ہدف غیر حقیقی معلوم ہوتا ہے۔

ان کے خیال میں حکومت اب پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں پر سبسڈی کا خاتمہ کرکے اور دیگر ٹیکس ا ہداف پورے کرنے کے لیے کچھ مزید اقدامات سے آئی ایم ایف کو قائل کرنے کی کوشش کررہی ہے۔

Back to top button