آئین کی دستک اور عدلیہ کے گناہوں کا کفارہ

تحریر:امتیاز عالم

بشکریہ:روزنامہ جنگ

آئین نے دستک دی بھی تو آئینی عدالت کی چوکھٹ پر جہاں یہ کئی بار نظریہ ضرورت کی بھینٹ چڑھایا جاچکا ہے۔ جب ہائبرڈ نظام زمین بوس ہوجائے اور ریاست کے فولادی ڈھانچے کی گرفت نیوٹرل ہوجائے تو ہماری محترمہ عالیہ و عظمیٰ کے کندھوں پہ وہ سیاسی بھار آن پڑتا ہے جسے وہ اُٹھائے تو مشکل میں، نہ اُٹھائے تو مفر نہیں۔ جس معاملےکے ازخود نوٹس اور خود بینچ کے معزز شرکا پہ ہی سوال اُٹھ جائیں تو منصفی (Arbitration) کے پلے کیا بچتا ہے۔ جب انصاف کی کرسی پہ بیٹھنے کی قدر و منزلت ہی نہ رہے تو شرافت اسی میں ہے کہ اس پر بیٹھنے پہ اصرار نہ کیا جائے۔ لیکن شاید شرافت گزرے زمانوں کی بھولی بسری روایت ہے۔ عدالت عظمیٰ پہ کڑا امتحان ہے، تقدس کا بوجھ اگر فل کورٹ اٹھالے تو شاید عدلیہ کے کچھ گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کی سبیل پیدا ہوسکے۔ جو اختلافی آوازیں انصاف کے منچ سے اُبھر کر آئی ہیں، ان پر سیخ پا ہونے کی چنداں ضرورت نہیں، وہ غور طلب ہیں۔ معاملہ فقط 90 روز کے آئینی تقاضے کا نہیں، جو گزر چکا ہے، موجودہ اور اس سے پیوستہ سیاسی و آئینی بحران اور عدالت عظمیٰ ہی کے متضاد فیصلوں کی گانٹھوں کو اپنے ہی دانتوں سے کھولنے کا بھی ہے۔ پھر سیاسی و انتقامی معاملات میں عدلیہ کے کود پڑنے کا شوق اس کیلئے ہمیشہ سوہان روح ثابت ہوا ہے۔ چیف جسٹس منیر، انوارالحق، افضل ظلہ، نسیم حسن شاہ، ارشاد حسن خان، افتخار محمد چوہدری، میاں ثاقب نثار، آصف سعید کھوسہ سے گلزار احمد تک ہم نے انصاف کا خون ہوتےکتنی بار دیکھا۔ ہماری اپنی ”عدلیہ بحالی“ کی تحریک کا شرمناک انجام بھی ہم افتخار چوہدری اور ثاقب نثار کی عدالتی حشرسامانیوں کے ہاتھوں خوب دیکھ چکے۔ اب اُمید کریں بھی تو کس سے؟ بہرکیف، معاملہ پھر اسی عطار کے لونڈے کے پاس ہے۔

ہمارے متفقہ آئین کے ساتھ کیا کچھ نہیں ہوا، تین بار توڑا گیا اور اس کے توڑنے والوں کو محترمہ عظمیٰ ہی نے توقیر بخشی۔ جب آئین توڑنے والوں کو بچایا جاسکتا ہے، تو آئین کی کوئی سی تشریح یا اس کی شقوں کو خود سے بدل دینے کی توفیق کیا مشکل کام ہے۔ پاکستانی سیاست اور ادارے اتنے جمہوریت کُش اور آئین شکن ہیں کہ آپ قدغن و توازن کے کیسے تفصیلی جتن کرلیں، شریف الدین پیرزادہ کے مکتب کے فارغ التحصیل مشاہرین جو شرح چاہیں نکال لیں۔ بھٹو صاحب کی سزائے موت ہو، یا پھر نواز شریف کی تاحیات نااہلی یا پھر آرٹیکل 63-A کی اکثریتی تشریح جسے دو جج صاحبان مظہر عالم خان میاں خیل اور جمال خان مندو خیل نے متعلقہ شق کو دوبارہ لکھنے کے مترادف قرار دیا۔اس تشریح ہی کے نتیجے میں حمزہ شہباز وزارت اعلیٰ سے فارغ ہوئے اور چوہدری پرویز الٰہی ہار کر بھی جیت گئے اور بعدازاں اسمبلی توڑنے کے بھی مرتکب ہوئے۔ شاید اسی لئے جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللّٰہ نے دو صوبائی اسمبلیوں کے توڑے جانے کے حوالے سے بھی سوال اٹھادیا ہے کہ کسی اسمبلی سے باہر کے شخص کی ضد پہ ایسے کیسے کیا جاسکتا ہے؟ اب جب عمران خان کے سر پر بھی تاحیات نااہلی کی تلوار لٹک رہی ہے، تو نواز شریف کے ساتھ کی گئی زیادتی کی بھولی بسری یاد بھی تازہ کی جارہی ہے۔ جسٹس مندوخیل نے پتے کی بات کی ہے کہ پارلیمنٹ خود یہ معاملہ کیوں نہیں نپٹاتی۔ بدقسمتی سے عدم اعتماد کے ووٹ کے بعد عمران خان نے نہ صرف قومی اسمبلی سے استعفیٰ دے کر پارلیمنٹ کے پلے کچھ نہیں چھوڑا بلکہ دو صوبائی اسمبلیوں کو زبردستی تڑوا کر ایک بڑا خلا پیدا کردیا اور اس طرح کے خلا کو پُر کرنے کیلئے موجودہ آئین میں گنجائش نہ ہونے کے سبب تشریحات کا ایسا دروازہ کھل جاتا ہے جس سے کوئی بھی فیصلہ پنچایتی تو ہوسکتا ہے، آئینی ہرگز نہیں۔ عالم غیب سے کمک ملی بھی ہے تو لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے سے جس کے نتیجہ میں پنجاب سے تحریک انصاف کے مستعفی اراکین کی رکنیت بحال ہونے کاکرشمہ ظہور پذیر ہوا ہے جس کا اطلاق دوسرے صوبوں تک ہوسکتا ہے اور یوں تحریک انصاف اور عمران خان کی پارلیمنٹ میں واپسی نظریۂ ضرورت کے تحت ہوسکتی ہے۔ اتحادی حکومت نے استعفوں کے التوا میں سمجھداری کا مظاہرہ کیا تھا جبکہ عمران خان سارے استعفوں کی منظوری پہ اصرار کرتے رہے۔ لیکن جانے کیوں اسپیکر قومی اسمبلی احتیاط کا دامن چھوڑ بیٹھے؟ دیر آید درست آید کے مصداق تحریک انصاف کی پارلیمنٹ میں واپسی کا خیر مقدم کیا جانا چاہئے اور تمام سیاسی جماعتوں کو پارلیمنٹ کے پلیٹ فارم ہی سے سیاسی گتھیوں اور آئینی کنفیوژن کا قابل قبول جمہوری حل نکالنا چاہئے۔ دوصوبوں میں انتخابات کیلئے 90 روزہ آئینی مدت تو گزر گئی، اب توجہ صاف و شفاف انتخابات پر ہونی چاہئے اور پارلیمنٹ کو اس کا ضامن بننا چاہئے، نہ کہ عدلیہ اور کسی طاقتور ادارے کو۔ یہ عمران خان کے حتمی مفاد میں ہے اور باقی پارلیمانی جماعتوں کا فائدہ بھی اسی میں ہے۔ انتخابات چوں کہ عوامی منشا ، جو سپریم ہے، کا مظہر ہوتے ہیں، اس لئے ان میں رائے دہندگان کی صحیح نمائندگی کا اہتمام بھی ہونا چاہئے جس کیلئے نئی مردم شماری کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ تحریک انصاف کے قومی اسمبلی کے اراکین کے آئینی و قانونی طور پر منظور شدہ استعفےاگرمعطل ہوسکتے ہیں اور ان کی رکنیت بحال ہوسکتی ہے تو پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیوں کی بحالی کی کوئی راہ نکالنا ہمارے کرشمہ سازوں کیلئے ایسا مشکل بھی نہیں۔ ایک ہی برس میں کئی انتخابات اور ان سے متعلق نگران حکومتوں کے قیام میں گڑ بڑ سے سارا انتخابی عمل مشکوک ہوسکتا ہے۔ مرکز میں مخالف اتحادی حکومت کے ہوتے ہوئے دو صوبوں کے انتخابات کے نتائج پہ سوالات اُٹھ سکتے ہیں، یا پھر دوصوبوں میں منتخب حکومتوں کے ہوتے ہوئے مرکز کے انتخابات پہ پڑنے والے اثرات سے انتخابی نتائج پہ خوفناک سیاسی بحران جنم لے سکتے ہیں۔ عمران خان اگرآئندہ انتخابات نہ جیتے تو کون یقین سے کہہ سکتا ہے کہ وہ اگلی پارلیمنٹ کی اینٹ سے اینٹ بجانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔ انتخابات کے انعقاد کا بنیادی مقصد عوام کی منشا جاننا ہے اور سیاسی بحران کا جمہوری حل نکالنا ہے۔ لیکن اگر دونوں مقاصد پورے نہ ہورہے ہوں توپھر ایسی انتخابی مہم سے سیاسی انتشار بڑھے گا، ختم نہیں ہو گا۔ دریں اثنا عدالت عظمیٰ گیند پارلیمنٹ کے کورٹ میں واپس پھینک سکتی ہے۔ اگر پھر بھی سیاستدان رولز آف دی گیم پہ اتفاق نہیں کرتے جو ان کے اجتماعی مفاد میں ہے تو ان کی مغفرت کی دعا ہی کی جا سکتی ہے۔

ہمارے ضیاء محی الدین

Related Articles

Back to top button