سر باجوہ، نہیں، ابھی نہیں
تحریر:محمد حنیف ، بشکریہ: بی بی سی اردو
پاکستان کے سب سے مایہ ناز فلمساز ہوتے تھے نذر الاسلام۔ انھوں نے پاکستان میں اردو کی سپر ہٹ فلمیں بنائیں جن میں آئینہ، احساس اور شرافت جیسے شاہکار شامل ہیں۔میں نے بچپن میں ان کی پہلی فلم دیکھی جس کا نام تھا ’نہیں، ابھی نہیں۔فلم کا موضوع اوائل عمری کا پیار تھا جسے شاید ٹین ایج لو کہتے ہیں۔ چونکہ ہم خود ٹین ایجر تھے اور گھر میں فلمیں دیکھنے پر پابندی تھی، اس لیے پیار کا لفظ صرف گانوں میں سنا تھا۔
لیکن فلم دیکھ کر لگا کہ ہماری زندگی پر کسی ظالم نے فلم بنا ڈالی ہے اور فلم دیکھنے کے بعد جب گھر پر مار پڑی تو ثابت ہو گیا کہ فلم ہمارے ہی بارے میں تھی۔بزرگ بنگالی ڈائریکٹر نے فلم میں اوائل عمری کا پیار بڑے چسکے لے کر دکھایا اور آخر میں اخلاقی سبق یہ دیا کہ کچی عمر میں پیار نہیں کرنا چاہئے، فلم کی آخری لائن تھی ’نہیں، ابھی نہیں۔نذر الاسلام نے اپنی آخری فلم کا نام رکھا تھا کالے چور۔ اس کے پروڈیوسر تھے حبیب جالب اور فلم کا موضوع تھا کرپشن۔ پاکستان میں کرپشن عمران خان کی دریافت نہیں ہے بھائیو، یہ بہت پرانی فلم ہے۔
پرانی فلموں کی یاد اس لیے آئی کہ اسلام آباد میں بھی ایک پرانی فلم کا شرطیہ نیا پرنٹ آ چکا ہے، جب پاکستان میں فوج کے سربراہ کی مدت ملازمت ختم ہونے کا سال آتا ہے تو ہمارے دفاعی تجزیہ کار نجومی بن جاتے ہیں، کسی نئے ولی عہد کی تلاش شروع ہو جاتی ہے، سنیارٹی کی لسٹیں بنتی ہیں۔سیاسی تجزیہ کاروں میں بھی صف بندیاں شروع ہو جاتی ہیں کہ جانے والا جائے گا تو آنے والا آئے گا۔ آج کل بھی سارے تجزیوں کے بین السطور یہی کہا جا رہا ہے کہ باجوہ رہے گا یا میں رہوں گا۔
کئی شاموں کو ایسا وقت آیا ہے جب میں نے بھی یہ نعرہ لگایا ہے کہ آج میں رہوں گا یا باجوہ رہے گا لیکن اگلے دن صبح گلے مل لیتے ہیں، گلے شکوے کر لیتے ہیں اور اسی پرانی تنخواہ پر نوکری شروع کر دیتے ہیں۔انگریزی میں ایسے واقعات کو کہتے ہیں کہ بگ پکچر پر نظر ہونی چاہئے۔
ہمارے وزیر اعظم عمران خان بھی اسی کے قائل ہیں اور قوم کو قائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ گیس بجلی کے بل نہ دیکھو، پیٹرول پمپ کے اوپر جاتے ہوئے نمبر پڑھ کر دل چھوٹا نہ کرو، یہ سوچو کہ میں پانچ سال اور رہوں گا، تمہاری عزت نفس بحال ہوگی اور جن کالے چوروں سے تمہاری جان چھڑوائی ہے وہ اب کبھی واپس نہیں آئیں گے۔اس بگ پکچر میں ہمارے تجزیہ کار سر باجوہ کا کردار گول کر جاتے ہیں۔
جب ’نہیں، ابھی نہیں‘ دیکھ کر گھر میں مار کھائی تو افغانستان کا پہلا جہاد شروع ہوا تھا۔ چالیس سال بعد جب افغانستان میں فتح مبین نصیب ہوئی تو سپہ سالار کون تھا؟ سر باجوہ۔پہلی جماعت میں پڑھتے تھے جب سقوط ڈھاکہ ہوا تھا۔ اب 50 سال بعد ہماری نئی نسلوں کو ٹی وی اور فلموں کے ذریعے بتایا جا رہا ہے کہ وہ بھی ہماری شکست نہیں بلکہ ایک چھوٹی موٹی فتح مبین تھی۔ سبق کس کی قیادت میں پڑھایا گیا؟پاکستانی لبرل عورتوں کے حقوق کا رونا روتے رہتے ہیں، لیکن صنفِ آہن کس نے بنوایا؟خبروں میں پڑھا ہے کہ سر باجوہ نے لاہور کی یونیورسٹیوں کے طلبہ اور طالبات کو تقریباً چھ گھنٹے کا لیکچر دیا اور ان کے سارے سوالات کے جواب تسلی بخش دیئے۔
لاہور کے طلبہ بہت ہی ذہین و فطین ہیں۔ میں نے بھی وہاں کی یونیورسٹی میں ایک سمیسٹر پڑھایا۔ ڈیڑھ گھنٹے کی کلاس ہوتی تھی اور تقریباً ایک گھنٹے 20 منٹ کے بعد میرا دماغ گھوم جاتا تھا۔اگر کوئی شخص ان بچوں اور بچیوں کو چھ گھنٹے پڑھا سکتا ہے تو اسے تاحیات سپہ سالار بنا دینا چاہئے۔باقی باتیں تکنیکی نوعیت کی ہیں۔ جب دو سال پہلے سر باجوہ کی نوکری کی توسیع کے بارے میں کسی جج صاحب نے سوال اٹھایا تھا تو ہمارے قانون دانوں کے ہاتھ پاؤں اتنے پھولے تھے کہ ایک نوٹیفیکیشن کی گرامر ہی درست نہیں ہو رہی تھی، تو وہ نوٹیفیکیشن کس نے بیٹھ کے لکھوایا؟
اس کے بعد ہمارے بزرگ سیاسی تجزیہ کاروں میں صرف اتنا ہی اختلاف ہے کہ ہمارے منتخب نمائندوں نے وہ قانون 13 منٹ میں پاس کیا یا 17 منٹ میں۔جیسا کہ پہلے عرض کر چکا ہوں کہ جہاں باجوہ ہوگا وہاں پھڈا بھی ہوگا، لمبی باتیں بھی ہوں گی، فتح مبین بھی ہوگی اور اگر بیچ میں کوئی ناراضگی ہو جائے تو اس کا حل بھی ہمارے بزرگ بنگالی فلم ساز نذر الاسلام اپنے ایک فلمی گیت میں بتا گئے تھے: