چین کے دیرینہ ساتھی پاکستان نے امریکہ سے دوستی کیسے نبھائی؟

خود کو چین کا بھائی نما دوست قرار دینے والے پاکستان کی امریکی صدر ٹرمپ کیلئے نوبیل امن انعام کی سفارش کے بعد اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے پاکستانی خارجہ پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے موقف اپنا رہے ہیں کہ اس کا کوئی سر پیر نہیں۔ تاہم سفارتی حلقوں میں اسے ایک کامیاب خارجہ پالیسی قرار دیا جا رہا ہے چونکہ امریکہ اور چین جیسی دو متحارب سپر پاورز کو توازن قائم رکھتے ہوئے اپنے ساتھ لیکر چلنا کوئی آسان کام نہیں۔

انڈیپینڈنٹ اردو کی ایک خصوصی رپورٹ کے مطابق پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں پاکستانی خارجہ پالیسی کی جو مبادیات طے کر دی گئی تھیں، زمینی حقائق کی تلخی اور تندی کے باوجود پاکستانی ریاست ان پر کامیابی اور مستقل مزاجی سے چل رہی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ان میں سے دو پہلو بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔ ایک یہ کہ چین ہمارا دوست ہے، ہمیں اسے نہ تو چھیڑنا ہے اور نہ ہی چھوڑنا ہے، لیکن ہمیں امریکہ کو بھی ساتھ لے کر چلنا ہے۔ اتنا مشکل سفارتی توازن قائم رکھنا آسان نہیں تھا لیکن یہ توازن قائم رکھنے کی بھر پور کوشش کی گئی اور آج تک کی جا رہی ہے۔

ایسے میں ناقدین کی جانب سے یہ سوال کرنا کہ پاکستان ہے کس کے ساتھ؟ چین کے ساتھ یا امریکہ کے ساتھ؟ سراسر جہالت ہے۔ خارجہ پالیسی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ جنہوں نے زندگی میں امور خارجہ پر ڈھنگ کی ایک کتاب نہیں پڑھی ہوتی ان کے خیال میں چین اور امریکہ کو ایک ساتھ لے کر چلنا پاکستان کا دوغلا پن ہے۔ لیکن وہ نہیں جانتے کہ ایسا کرنا پاکستان کی کتنی بڑی سفارتی کامیابی ہے۔

دوسرا توازن پاکستان نے سعودی عرب اور ایران کے ساتھ تعلقات میں برقرار رکھا ہے۔ وزارت خارجہ کے ذرائع کے مطابق ایران پاکستان کا پڑوسی اور برادر اسلامی ملک ہے لہٰذا ہم اس کے ساتھ تعلقات کسی بھی صورت نہیں بگاڑ سکتے جبکہ سعودیہ سے تو ہمارا مذہبی اور قلبی رشتہ ہےبجسے ہم نے ہر حال میں نبھانا ہے۔

سفارتی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مشرق وسطی کی سیاست نے بہت اتار چڑھاؤ دیکھے لیکن پاکستان نے اسکے باوجود یہ توازن قائم رکھا ہے اور یہ بھی پاکستان کی خارجہ پالیسی کی غیر معمولی کامیابی ہے۔ انکا کہنا ہے کہ پاکستان جب ان دونوں ممالک میں قربت کے لیے بروئے کار آتا ہے تو مخالفین اس پر تہمتیں لگاتے ہیں لیکن جو جانتے ہیں انہیں معلوم ہے کہ پاکستان ہی اس کام کے لیے موزوں ترین ملک ہے۔

جب امریکی صدر ٹرمپ نے اقتدار سنبھالا تو پاکستان میں تجزیہ کاروں میں عمومی اتفاق تھا کہ پاکستان ٹرمپ کے لیے اہم نہیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا کے بعد پاکستان اب غیر متعلق ہو چکا ہے۔

لیکن یہ سارے تجزیے وقت کی دھول بن چکے اور ٹرمپ خود ہی زبان حال سے بتا رہے ہیں کہ اس کے لیے اس وقت پاکستان کتنا اہم ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس پر پاکستان کی خارجہ پالیسی کی کامیابی کا اعتراف کرنے کی بجائے ناقدین الٹا پاکستان کو کوسنے دیے جا رہے ہیں۔ ان ناقدین کے خیال میں جب جب پاکستان اور امریکہ قریب آئے، دراصل پاکستان نے قومی مفادات پر سمجھوتہ کیا۔ لیکن درحقیقت یہی پاکستان کی سفارتی کامیابی ہے۔

ن لیگ عمران کو کاؤنٹر نہ کر پائی تو عاصم منیر کے حامی کیا کریں گے؟

خارجہ پالیسی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ جس طرح پاکستان نے تمام تر دباؤ کے باوجود اپنا نیوکلیئر پروگرام بنایا اور پھر اسے بچایا وہ ایک بہترین خارجہ پالیسی کا ہی نتیجہ ہے۔ انکے مطابق حالیہ پاک بھارت جنگ سے پہلے پاکستان کو امریکہ کے لیے ایک غیر متعلق ملک قرار دیا جا رہا تھا اور طعنے دیے جاتے تھے کہ پاکستان دنیا میں تنہا ہو گیا ہے۔ لیکن جب وقت آیا تو ثابت ہوا کہ پاکستان تنہا نہیں۔ امریکی صدر نے نہ صرف دونوں نیوکلیئر ہمسائیوں کے مابین جنگ بندی کروائی بلکہ پاکستانی فیلڈ مارشل عاصم منیر کو واشنگٹن بلا کر ان کی تعریف کی۔ اب انڈیا تنہا ہو رہا ہے اور مودی اور ٹرمپ کے درمیان دوریاں پڑتی دکھائی دیتی ہیں۔

خارجہ پالیسی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ کئی دہائیوں کے بعد پاکستان اور بنگلہ دیش کی قربت پاکستان کی ایک بڑی سفارتی کامیابی ہے کیونکہ ماضی میں بنگلہ دیش بھارت کے بہت زیادہ قریب تھا۔ اسی طرح پاک افغان محاذ پر بھی تیزی سے صورتحال بہتر ہو رہی ہے

اور افغان حکومت کیساتھ تعلقات پر جمی برف پگل رہی ہے، یہ بھی پاکستان کی بڑی سفارتی کامیابی ہے۔ مختصرا یہ ہے کہ خارجہ محاذ پر پاکستان نے پچھلے کچھ عرصے میں بے مثال سفارتی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔

Back to top button