ایرانی حملوں کے بعد امریکہ اور اسرائیل نے گھٹنے کیوں ٹیک دیے ؟

امریکہ کی جانب سے ایرانی نیوکلیئر تنصیبات پر فضائی حملوں کے رد عمل میں قطر اور عراق میں موجود امریکی فوجی اڈوں پر ایران کے جوابی حملوں کے بعد یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ اب امریکہ ذیادہ شدت کے ساتھ ایران پر حملہ آور ہو گا، لیکن حیران کن طور پر تب اس معاملے کا اینٹی کلائمکس ہو گیا جب صدر ٹرمپ نے اسرائیل اور ایران کے مابین سیز فائر کا اعلان کر دیا۔ دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کا سیز فائر کا اعلان دراصل اسرائیل کے ایما پر کیا گیا ہے جس کا بنیادی مقصد اسرائیل کو ایران کے ہاتھوں مزید تباہ ہونے سے بچانا ہے۔

قطر اور عراق میں امریکی فوجی اڈوں پر ایرانی میزائل حملوں کے بعد بجائے کہ امریکہ جوابی حملے کرتا، صدر ٹرمپ نے ایک ٹویٹ کرتے ہوئے دنیا کو حیران کر دیا۔ ایران اور اسرائیل کے درمیان سیزفائر کا اعلان کرتے ہوئے ٹرمپ نے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ جنگ بندی اس اعلان کے تقریباً چھ گھنٹے بعد شروع ہو جائے گی۔ ٹرمپ نے پیر کو واشنگٹن کے مقامی وقت کے مطابق شام چھ بجے لکھا: اسرائیل اور ایران کے درمیان مکمل جنگ بندی پر اتفاق ہو چکا ہے۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ جنگ بندی کا آغاز ’تقریباً چھ گھنٹے بعد‘ ہو جائے گا جب دونوں ممالک اپنی فوجی کارروائیاں ’ختم‘ کر دیں گے۔

لیکن ایران نے ٹرمپ کی اس ٹویٹ کے بعد بھی اسرائیل پر کئی میزائل داغے جن میں اسرائیلی ایمرجنسی حکام کے مطابق کم از کم تین افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے۔ اس حملے کے بعد صدر ٹرمپ نے ایک اور ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ’جنگ بندی اب نافذ العمل ہو چکی ہے۔ پلیز اس کی خلاف ورزی نہ کریں۔‘

اس دوران ایران کے وزیر خارجہ نے اعلان کیا کہ اگر اسرائیل اپنے حملے روک دے تو ایران بھی حملے بند کر دے گا۔ اس کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے بھی جنگ بندی کی تجویز کو قبول کرنے کا اعلان کر دیا۔ اس سے پہلے ایران نے اپنی جوہری تنصیبات پر امریکی حملوں کے ردعمل میں قطر اور عراق میں امریکی فضائی اڈوں پر میزائل داغے تھے۔ صدر ٹرمپ نے اپنی ٹویٹ میں ان حملوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ ان میں کوئی امریکی جانی نقصان نہیں ہوا۔ انھوں نے ایرانی کارروائی کو ’انتہائی کمزور‘ قرار دیا لیکن ساتھ ہی ایران کا بروقت ان حملوں کی پیشگی اطلاع دینے پر شکریہ ادا کیا۔

ٹرمپ کی جانب سے جنگ بندی کے اعلان کو ایران کی اخلاقی فتح قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ دنیا کی دو بڑی فوجی طاقتیں یعنی امریکہ اور اسرائیل پہلے اس پر حملہ آور ہوئیں اور پھر سخت ایرانی رد عمل کے بعد جنگ بندی کی طرف چلی گئیں۔ دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایران کی جانب سے جوابی کاروائیوں میں 30 فیصد اسرائیل مکمل طور پر تباہ ہو گیا اور اب اسرائیلی عوام وزیراعظم نیتن یاہو کے خلاف ہوتے جا رہے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایران کے ہاتھوں اسرائیل میں جو تباہی ہوئی اس کا نیتن یاہو نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا۔ اس نے ایران کو انڈر ایسٹیمیٹ کیا۔ اسرائیل اور امریکہ دونوں کا یہ موقف تھا کہ ایران پر حملوں کا بنیادی مقصد اس کے نیوکلیئر پروگرام کو تباہ کرنا تھا لیکن اب یہ اطلاعات ہیں کہ اسرائیل اور امریکہ ایسا کرنے میں ناکام رہے چونکہ اپنی نیوکلیئر تنصیبات پر حملوں سے پہلے ہی ایران نے افزودہ یورینیم محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا تھا۔

امریکی صدر نے سوشل میڈیا پر پوسٹ میں کہا’ یہ ایک ایسی جنگ ہے جو برسوں جاری رہ سکتی تھی اور پورے مشرق وسطی کو تباہ کر سکتی تھی لیکن ایسا نہیں ہوا اور کبھی نہیں ہوگا۔‘ انہوں نے لکھا کہ ’خدا اسرائیل کو سلامت رکھے، خدا ایران کو سلامت رکھے، خدا مشرقِ وسطی کو سلامت رکھے، خدا امریکہ کو سلامت رکھے اور خدا پوری دنیا کو سلامت رکھے۔‘

امریکا نے دوبارہ جارحیت کی تو بھرپور جواب دیا جائے گا، کمانڈر انچیف پاسداران انقلاب

امریکی صدر ٹرمپ کی اس ٹویٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے جنگ بندی پر خدا کا شکر ادا کیا ہے چونکہ اگر یہ جنگ پھیل جاتی تو سب کا نقصان ہونا تھا۔ جنگ بندی کے اعلان کے بعد انسانی حقوق کی ایک تنظیم نے کہا ہے کہ ایران پر اسرائیلی حملوں میں کم از کم 950 ایرانی جاں بحق اور تین ہزار 450 زخمی ہو گئے ہیں۔ واشنگٹن میں موجود تنظیم ہیومن رائٹس ایکٹوسٹس نے یہ اعداد و شمار پیش کیے، جو پورے ایران کا احاطہ کرتے ہیں۔ تنظیم نے کہا ہے جاں بحق ہونے والوں میں 380 عام شہری اور 253 سکیورٹی فورس کے اہلکار شامل ہیں۔

دوسری جانب ایران نے اس تنازع کے دوران اموات کے باقاعدہ اعدادوشمار جاری نہیں کیے لیکن ایرانی وزارت صحت نے کہا ہے کہ اسرائیلی حملوں میں تقریباً 400 ایرانی جاں بحق اور تین ہزار 56 زخمی ہوئے ہیں۔ دوسری جانب ایران کے جوابی حملوں میں دو درجن سے زائد اسرائیلیوں کے ہلاک ہونے کی اطلاع ہے، لیکن خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ اسرائیلی حکام اصل ہلاکتوں کی تعداد چھپا رہے ہیں جو کہ سینکڑوں میں ہو سکتی ہے۔

Back to top button