جنرل فیض حمید سے ایم کیو ایم لیڈر کے قتل کیس میں تفتیش کا امکان
انتہائی قابل اعتماد اور باخبر ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ کورٹ مارشل کا سامنا کرنے والے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو ایم کیو ایم کے ایک سابق رکن قومی اسمبلی علی رضا عابدی کے قتل کیس میں بھی تفتیش کا سامنا کرنا پڑے گا۔ فیض حمید جس ٹاپ سٹی نامی ہاؤسنگ سکیم پر قبضے کی کوشش کے الزام میں گرفتار ہوئے ہیں اس کے مالک کنور معیز کے دو بڑے بزنس پارٹنرز علی رضا عابدی اور حیدر عباس رضوی تھے جو 2013 سے 2018 تک ایم کیو ایم کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے اراکین رہے۔ ان میں سے علی رضا عابدی کو 25 دسمبر 2018 کو کراچی کے علاقے ڈیفنس میں انکی رہائش گاہ کے باہر کرائے کے شوٹرز نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا تھا۔ علی رضا عابدی کے قتل کیس میں 29 اپریل 2024 کو کراچی کی انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت سے سزائے موت پانے والے چار شوٹرز کو خود بھی معلوم نہیں تھا کہ انہیں اس کام کے لیے سپاری دینے والا کون تھا۔
ذرائع کے مطابق ٹاپ سٹی ہاؤسنگ پراجیکٹ میں کنور معیز کو ایم کیو ایم کے ان دونوں رہنماؤں کی مالی اور سیاسی مدد حاصل تھی۔ جب ریٹائرڈجنرل فیض حمید نے طاقت کے نشے میں دھت ہو کر ٹاپ سٹی پراجیکٹ کو ہڑپ کرنے کا فیصلہ کیا تو ان دونوں اراکین قومی اسمبلی کے برے دن شروع ہو گئے۔ علی رضا عابدی اور حیدر عباس رضوی نہ صرف کنور معیز کے دیرینہ دوست تھے بلکہ ٹاپ سٹی پروجیکٹ میں اس کے پارٹنر بھی تھے۔ تاہم کراچی میں بریانی کی ایک بڑی چین چلانے والے علی رضا عابدی کی کنور معیز کے ہاؤسنگ پراجیکٹ میں کافی زیادہ انویسٹمنٹ تھی۔ جب کنور معیز کے گھر پر فیض حمید نے غیر قانونی طور پر رینجرز اور آئی ایس آئی کا چھاپہ مروایا اور اس پر دباؤ ڈالا کہ وہ اپنی سوسائٹی فیض کے بھائی نجف حمید کے نام کر دے تو علی رضا عابدی اور حیدر عباس رضوی نے اپنے تعلقات استعمال کرتے ہوئے اپنے پارٹنر کی رہائی کے لیے آواز اٹھانے کی کوشش کی۔ یاد ریے کہ کنور معیز کو اس جھوٹے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا کہ اس کا اسلام آباد والا گھر ایم کیو ایم کے دہشت گردوں کی پناہ گاہ تھا۔
ذرائع کے مطابق علی رضا عابدی اور حیدر عباس رضوی نے سینیئر فوجی حکام سے بھی ملاقاتیں کی اور انہیں اس حقیقت سے اگاہ کیا کہ کنور معیز کو صرف زمین ہتھیانے کے لیے جھوٹا الزام لگا کر گرفتار کیا گیا ہے اور اس معاملے میں جنرل فیض حمید ذاتی طور پر ملوث ہے جن کا بنیادی مقصد قیمتی زمین ہتھیانا ہے۔ اس دوران حیدر عباس رضوی کو دھمکی ملی کہ اگر اس نے کنور معیز کا ساتھ نہ چھوڑا تو اسے الطاف حسین کی ایم کیو ایم لندن سے جوڑ کر گرفتار کروا دیا جائے گا۔ چنانچہ حیدر عباس رضوی جان بچانے کے لیے پاکستان چھوڑ کر کینیڈا فرار ہو گے۔ لیکن دوسری جانب علی رضا عابدی اپنے بزنس پارٹنر اور دوست کنور معیز کے معاملے میں خاموشی اختیار کرنے پر تیار نہیں تھے چونکہ وہ ٹاپ سٹی پراجیکٹ میں بھاری سرمایہ کاری کر چکے تھے۔ فیض اینڈ کمپنی کے لیے مسلہ یہ تھا کہ عابدی کو حیدر عباس رضوی کی طرح ایم کیو ایم کے حوالے سے ڈرایا بھی نہیں جا سکتا تھا چونکہ وہ الطاف حسین کا ساتھ چھوڑ کر پیپلز پارٹی میں شامل ہونے کی کوشش کر رہے تھے اور اس سلسلے میں ان کی آصف زرداری سے ملاقات بھی ہو چکی تھی۔
ان حالات میں فیض حمید اور انکا بھائی نجف حمید پٹواری علی رضا عابدی کو اپنے لیے ایک بہت بڑا خطرہ سمجھتے تھے۔ انکا خیال تھا کہ جب تک علی رضا عابدی زندہ ہیں، ٹاپ سٹی ہاؤسنگ سوسائٹی پر قبضہ کرنا ممکن نہیں ہو گا۔ اس دوران علی رضا عابدی نے معیز کے گھر پڑنے والے چھاپے کو اتنا بڑا ایشو بنا دیا تھا کہ یہ معاملہ اب عسکری حلقوں میں بھی ڈسکس ہو رہا تھا۔ اسی کشمکش میں علی رضا عابدی کو راستے سے ہٹانے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ بنیادی مقصد یہ تھا کہ جب کنور معیز سے ٹاپ سٹی کی اراضی غیر قانونی طور پر جنرل فیض حمید کے بھائی نجف حمید کے نام کروا لی جائے تو اس جائیداد کا اور کوئی دعوی دار موجود نہ ہو۔ چنانچہ 25 دسمبر 2018 کو رات ساڑھے نو بجے علی رضا عابدی کو دفتر سے نکل کر گھر کے دروازے پر پہنچتے ہی کرائے کے قاتلوں نے پانچ گولیاں مار کر قتل کر دیا۔
اس قتل کی کی سی سی ٹی وی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ جب علی رضا عابدی اکیلے اپنی گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے گھر کے دروازے پر پہنچے تو کچھ موٹر سائیکل سوار ان کا پیچھا کر رہے تھے۔ جیسے ہی وہ گاڑی سے اترے تو انہیں گولیاں پانچ گولیاں ماری گئیں، جن میں سے تین ان کے سر پر، ایک گردن پر اور ایک پیٹ میں لگی۔ انہیں ان کے والد نے ہسپتال پہنچایا لیکن وہ جانور نہ ہو سکے۔ علی رضا عابدی نے 2013 کے عام انتخابات میں ایم کیو ایم پاکستان کی جانب سے حلقہ این اے 251 سے الیکشن لڑا تھا اور رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ وہ اگلے پانچ برس یعنی مئی 2018 تک قومی اسمبلی کے رکن رہے۔ کراچی میں انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نے اس واردات کے چھ برس بعد 29 اپریل 2024 کو علی رضا عابدی قتل کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے چار ملزمان کو عمر قید کی سزا سنائی لیکن انہیں خود بھی یہ معلوم نہیں تھا کہ ان سے قتل کروانے والا اصل شخص کون تھا اور اس نے یہ قتل کیوں کروایا۔ عدالت نے جن مجرمان کو عمر قید کی سزا سنائی ان میں عبدالحسیب، غزالی، محمد فاروق اور ابو بکر شامل تھے۔ پولیس کے مطابق قتل کی سپاری وصول کرنے کے لیے ایک نامعلوم شخص کے کہنے پر عبدالحسیب اپنے کزن کے ہمراہ کراچی میں واقع حسینی بلڈنگ گیا جہاں پر ایک اور نامعلوم شخص نے انھیں آٹھ لاکھ روپے دیے جو کہ شوٹرز نے آپس میں تقسیم کیے۔ علی رضا عابدی کے قتل کے بعد ان کی بیگم اور بچے ملک چھوڑ گئے تھے اور ان کا پورا خاندان بکھر گیا تھا۔ انتہائی قابل اعتماد ذرائع کے مطابق کورٹ مارشل کے لیے گرفتار ہونے والے جنرل فیض حمید سے اب علی رضا عابدی کے اندھے قتل کے حوالے سے بھی تحقیقات کی جائیں گی تاکہ ان کے کردار کا تعین کیا جا سکے۔