حکومت کا نیٹ فلیکس اور یوٹیوب پر بھی سنسر شپ لگانے کا فیصلہ

عوام کے لیے سستی تفریح کا ذریعہ سمجھے جانے والے یوٹیوب، نیٹ فلکس، ایمازون پرائم اور ڈزنی پلس جیسے او ٹی ٹی پلیٹ فارمز کو ریگولیٹ کرنے کا حکومتی فیصلہ سخت عوامی تنقید کی زد میں ہے صارفین نے "قابلِ اعتراض مواد” کے تدارک کے نام پراو ٹی ٹی پلیٹ فارمز کیلئے تیار حکومتی ریگولیشنز کو آزادی اظہار پر ایک نیا حملہ قرار دے دیا ہے ۔ ناقدین کے مطابق حکومتی سنسر شپ کی وجہ سے او ٹی ٹی پلٹ فارمز وہ واحد جگہیں ہیں جہاں عوام کو حکومتی بیانیے سے ہٹ کر متبادل آوازیں سننے اور دنیا بھر کا تنوع دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ تاہم اب حکومت نے ان پلیٹ فارمز کو بھی پیمرا کے شکنجے میں جکڑنے کی تیاری شروع کر دی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس تازہ واردات کا بنیادی مقصد معاشرتی اصلاح نہیں بلکہ اختلافی نقطہ نظر اور غیر سرکاری بیانیوں کو دبانا ہے تاکہ ناپسندیدہ آوازوں اور متبادل نقطہ نظر کو ہمیشہ کیلئے دفن کیا جا سکے۔ حکومتی فیصلہ اس بات کا غماز ہے کہ ریاست روایتی میڈیا کی طرح ڈیجیٹل دنیا پر بھی ہر صورت اپنی گرفت قائم کرنے کے درپے ہے اسی خواب کی تعبیر کیلئے حکومت نے او ٹی ٹی پلیٹ فارمز کو ریگولیٹ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

خیال رہے کہ پاکستان میں اب تک او ٹی ٹی یعنی اوور دی ٹاپ پلیٹ فارمز پر انٹرنیٹ کے ذریعے بغیر کسی بندش کے ویڈیوز، ڈرامے، فلمیں اور براہِ راست چینلز دیکھ سکتے تھے تاہم اب وفاقی وزارت اطلاعات و نشریات نے وزارت قانون و انصاف کے اشتراک سے ایک ایسی سمری تیار کی ہے جس میں پیمرا کے ذریعے او ٹی ٹی پلیٹ فارمز کو ریگولیٹ کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔اس حوالے سے جاری مشاورتی عمل کے بعد سمری حتمی منظوری کے لیے کابینہ کمیٹی برائے قانون سازی کو بھجوائی جائے گی۔

تاہم یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ حکومتی فیصلے کے بعد کون کون سے او ٹی ٹی پلیٹ فارمز پابندیوں کی زد میں آئیں گے۔ ذرائع کے مطابق او ٹی ٹی پلیٹ فارمز سے مراد ایسے آن لائن سٹریمنگ پلیٹ فارمز ہیں جو انٹرنیٹ کے ذریعے ڈرامے، فلمیں، کھیلوں کی نشریات یا چینلز براہِ راست صارفین تک پہنچاتے ہیں۔ ان کے لیے کسی کیبل یا ڈش کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ایسے پلیٹ فارمز میں یوٹیوب، نیٹ فلکس، ایمازون پرائم ویڈیو، ڈزنی پلس اور پاکستان میں دستیاب ایپس جیسے ٹیپ میڈ ٹی وی، جیو ٹی وی ایپ اور اے آر وائی زیپ شامل ہیں۔ جس پر اب حکومت نے سنسر شپ لگانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

تاہم ماہرین کے مطابق ’او ٹی ٹی پلیٹ فارمز انٹرنیٹ کے ذریعے کام کرتے ہیں، اس لئے وہ پیمرا کے دائرہ اختیار میں نہیں آتے۔ حکومت نے اگر ان کو اپنے دائرہ اختیار میں لانا ہے تو یقینی طور پر پیمرا کو قانونی طور پر یہ اختیارات دینا ہوں گے۔‘ تاہم اگر حکومت ان انہوں نے بتایا کہ ’حکومت ایسے پلیٹ فارمز کے کانٹینٹ کی طرف جاتی ہے تو یہ اقدام سنسر شپ کے مترادف ہو گا۔ حکومت نے اگر کوئی ایسا اقدام کیا تو پھر آنے والے دنوں میں یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آن لائن پلیٹ فارمز کچھ خاص فلمز یا شوز پاکستان میں نہ دکھائیں، تو اس سے اظہارِ رائے کی آزادی شدید متاثر ہو گی۔‘ حکومت کو ایسے کسی بھی فیصلے سے قبل تمام سٹیک ہولڈرز، یعنی ایسے پلیٹ فارمز چلانے والوں، ناظرین اور ماہرین سے بات چیت کر کے ہی اقدامات کرنے چاہییں تاکہ کسی بھی فرد کے آئینی حقوق پر زد نہ پڑے۔

ناقدین کے مطابق حکومت کا یہ اقدام اس سوال کو بھی جنم دیتا ہے کہ کیا واقعی ریاست کا او ٹی ٹی پلیٹ فارمز کو ریگولیٹ کرنے مقصد عوام کو "فحاشی اور غیر اخلاقی مواد” سے بچانا ہے یا یہ ایک اور طریقہ ہے جس کے ذریعے آزاد آوازوں کو دبایا جائے گا؟ حقیقت یہ ہے کہ اگرپیمرا کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو واضح ہوتا ہے کہ یہ ادارہ زیادہ تر تنقیدی آوازوں کو خاموش کرنے کے لیے استعمال ہوتا رہا ہے۔ اگر یہی ماڈل او ٹی ٹی پلیٹ فارمز پر بھی لاگو کیا گیا تو نہ صرف اظہارِ رائے کی آزادی متاثر ہو گی بلکہ پاکستان کی ڈیجیٹل دنیا بھی دنیا سے مزید کٹ کر رہ جائے گی۔ تاہم لگتا یہی ہے کہ حکومت نے جس طرح پیمرا کے ذریعے الیکٹرانک میڈیا چینلز کو کنٹرول کیا ہے، اسی طرح او ٹی ٹی پلیٹ فارمز کو بھی اس اقدام کے ذریعے کنٹرول کرنے کافیصلہ کر لیا ہے تاکہ نئے ریگولیشنز سے  ریاست مخالف بیانیے کو کمزور کرنے کے ساتھ ساتھ تمام پلیٹ فارمز پر اپنا من پسند بیانیہ چلایا جا سکے۔تاہم حقیقت یہ ہے کہ’حکومت مکمل طور پر او ٹی ٹی پلیٹ فارمز کو کنٹرول نہیں کر سکتی، البتہ ان پر چلنے والے مخصوص کانٹینٹ پر پابندی لگا سکتی ہے اور صارفین کو وہ لنکس، جن کے ذریعے کانٹینٹ تک رسائی ممکن ہوتی ہے،وہ نئے قوانین نافذ ہونے کے بعد عام صارفین کی دسترس سے باہر ہو جائیں گے۔

Back to top button

Adblock Detected

Please disable the adblocker to support us!