پاک بھارت سیز فائر پرصدر ٹرمپ اور مودی کے رشتے میں دراڑکیوں آ گئی؟

امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے نیوکلئیر ہتھیاروں سے لیس ساؤتھ ایشیا کے دو ہمسایوں انڈیا ور پاکستان میں سیز فائر کروانے کے بعد اب بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور صدر ٹرمپ کی دوستی میں دراڑیں پیدا ہونا شروع ہو گئی ہیں جس کے بعد جہاں بھارتی وزیر خارجہ نے مسئلہ کشمیر بارے امریکی صدر کی ثالثی کو مسترد کردیا ہے وہیں تازہ اطلاعات کے مطابق بھارتی سیکرٹری خارجہ وکرم مسری پاک بھارت کشیدگی کے خاتمے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کردار ماننے سے ہی انکاری ہو گئے ہیں بھارتی سیکرٹری خارجہ کا کہنا ہے کہ پاک بھارت جنگ بندی معاہدے میں ٹرمپ کاکوئی کردار نہیں تھا، 10مئی کو پاکستان اور بھارت میں ملٹری آپریشنز روکنے کا فیصلہ دوطرفہ تھا۔ بھارتی وزارت خارجہ کی جانب سے مسلسل سامنے آنے والے صدر ٹرمپ کی مخالفت کو مودی اور ٹرمپ کے مابین ایک خلیج قرار دیا جا رہا ہے۔

خیال رہے کہ ایک ہفتہ قبل صدر ٹرمپ نے انڈیا اور پاکستان کے درمیان ایک مختصر مگر شدید لڑائی کے بعد جنگ بندی کا اعلان کیا تھا۔ تاہم یہ جنگ بندی کیسے ہوئی اس حوالے سے امریکہ اور انڈیا کا موقف مختلف ہے۔ جس کا دونوں اطراف سے کھل کر اظہار کا سلسلہ جاری ہے جہاں ایک طرف صدر ٹرمپ پاک بھارت جنگ رکوانے کو اپنی بڑی سفارتی کامیابی قرار دے رہے ہیں وہیں دوسری جانب بھارت سیز فائر میں امریکی صدر کے کسی قسم کے کردار سے ہی انکاری ہو چکا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق پاک بھارت کشیدگی میں شدت آنے کے بعد امریکی انتظامیہ کا خیال تھا کہ ’اس مرحلے میں مداخلت سے انہیں ٹرمپ کے کردار کو اجاگر کرنے کے حوالے سے مدد مل سکتی ہے۔‘اسی بنیادی محرک کی وجہ سے ٹرمپ نے جلدی سے جنگ بندی کا اعلان کر دیا۔‘

امریکی صدر نے چار دنوں تک دونوں ممالک کے ڈرونز، میزائلز اور توپ خانے کے حملوں کے بعد جنگ بندی کا اعلان کیا۔ ان حملوں میں تقریباً 70 افراد ہلاک ہوئے جن میں درجنوں شہری شامل ہیں، جبکہ ہزاروں لوگوں کو بے گھر ہونا پڑا۔

بعدازاں صدر ٹرمپ نے انڈیا اور پاکستان کو ’مکمل جنگ کے کنارے سے واپس لانے‘ پر فخر کا اظہار کیا اور کہا کہ پاکستان اور بھارت ایٹمی جنگ کے دہانے پر پہنچ چکے تھے تاہم وہ دونوں ممالک میں سیز فائر کروانے میں کامیاب رہے۔یہ بہت بڑی کامیابی ہے جس کا انھیں کریڈٹ ضرور ملنا چاہیے۔‘

تاہم دوسری جانب انڈیا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ان دعووں کو نظر انداز کرتا دکھائی دینا ہے کیونکہ یہ بیانات بھارت کی دہائیوں پرانی پالیسی کے خلاف ہیں کیونکہ انڈیا اپنی ماضی کی پالیسی کے تحت  پاکستان کے ساتھ تنازعات میں کسی بیرونی ثالثی کے خلاف ہے۔ اسی لئے جنگ بندی کے بعد انڈین وزیراعظم نریندر مودی کی پہلی تقریر میں بھی سیز فائر کروانے کے حوالے سے امریکہ مداخلت کا ذکر نہیں تھا اور اس کے بعد سے سے بھی مودی سرکارکا اصرار ہے کہ پاکستان کے ساتھ بات چیت ’صرف دو طرفہ‘ چل رہی ہے۔ دوسری جانب انڈیا نے امریکی صدر کے اس دعوے کو بھی مسترد کر کر دیا ہے کہ امریکی مداخلت پر پاکستان اور بھارت کے مابین فورا جنگ بندی تجارتی دباؤ کی وجہ سے ہوئی۔انڈین وزارت خارجہ کے مطابق ’امریکی حکام کے ساتھ بات چیت میں تجارت کا مسئلہ سامنے نہیں آیا۔‘

دفاعی تجزیہ کاروں کے مطابق ٹرمپ کی بیان بازی انڈیا کے لیے ’پریشان کن‘ ثابت ہو رہی ہے جو اپنے سٹریٹجک محل و وقوع اور مارکیٹ کے بڑے سائز کی وجہ سے امریکہ کا ایک اہم اتحادی ہے۔تاہم  انڈیا اس حوالے سے’بہت محتاط‘ کھیل رہاہے کیونکہ وہ امریکہ کے ساتھ تجارتی معاہدے کے لیے بات چیت کر رہا ہے تاکہ بھاری ٹیرف سے بچا جا سکے۔انڈین وزیراعظم نریندر مودی کے لیے یہ ملکی سطح پر ایک نازک معاملہ ہے کیونکہ امریکی صدر کی جانب سے مسلسل پاک بھارت جنگ بندی کروانے کے بیانات اور مسئلہ کشمیر بارے ثالثی کی پیشکش نے بھارت کو دوراہے پر کھڑا کر رکھا ہے کیونکہ اگر بھارت صدر ٹرمپ کی بات قبول کرتا ہے تو اس سے مودی سرکار کو اندرونی دباؤ کا سامنا کرنا پڑے گا اور اگر ٹرمپ کو انکار کرتا ہے تو اسے امریکی کی ناراضی مول لینا ہو گی جو مودی سرکار کا دھڑن تختہ کر دے گی۔

دوسری طرف امریکی صدر کے سامنے آنے والے بیانات اور دعوؤں کے بعد مودی سرکار کو بھارت کے اندر سے بھی سخت تنقید کا سامنا ہے جبکہ اب بھارت کی مرکزی اپوزیشن جماعت کانگریس نے حکومت سے فوری آل پارٹیز اجلاس بلانے کا مطالبہ کر دیا ہے تاکہ حکومت سے یہ پوچھا جا سکے کہ کیا انڈیا پاکستان کے ساتھ کشمیر کے تنازع پر ’تیسرے فریق کی ثالثی‘ کی اپنی پالیسی تبدیل کر رہا ہے؟ کیونکہ دونوں ملکوں نے سنہ 1970 کی دہائی میں ’اختلافات کو دوطرفہ مذاکرات کے ذریعے پرامن طریقے سے حل کرنے‘ پر اتفاق کیا تھا۔

Back to top button