مریم نواز نے بطوروزیراعلیٰ اپنی نااہلی کااعتراف کیسے کیا؟

وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے حالیہ سیلاب کے دوران گجرات کی ابتر صورتحال پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے گجرات کو گورننس کے لحاظ سے بدترین ضلع قرار دے دیاہے، تاہم خودفریبی کا شکار مریم نواز شاید بھول چکی ہیں کہ گجرات کوئی الگ ریاست نہیں بلکہ پنجاب ہی کا ضلع ہے، اور پنجاب کی باگ ڈور اس وقت انہی کے ہاتھ میں ہے۔ اپنی ہی حکومت کی ناکامیوں پر تنقید کرکے مریم نواز گویا اپنی نااہلی کا پردہ خود ہی چاک کر رہی ہیں۔ ناقدین کے مطابق گجرات کی ناکام گورننس دراصل مریم نواز کی اپنی حکومت کی ناکامی ہے جسے وہ دوسروں کے کھاتے میں ڈال کر بری الذمہ ہونے کی ناکام کوشش کر رہی ہیں۔ تاہم یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر گجرات میں بدانتظامی اور ناقص حکومتی کارکردگی عیاں ہے تو اس کا اصل ذمہ دار کون ہے؟ وزیر اعلیٰ خود یا کوئی اور؟
خیال رہے کہ پنجاب میں حالیہ سیلاب کے بعد گجرات کی تباہی نے حکومتی نااہلی کو بے نقاب کر دیا ہے۔ شہر کئی دنوں تک پانی میں ڈوبا رہا، گھروں اور دکانوں کا سامان برباد ہوا، کاروبار ٹھپ ہو گئے جس کے بعدنکاسی آب کے نظام کی حقیقت کھل کر سامنے آ گئی۔ اس ساری صورتحال میں سب سے ہولناک انکشاف یہ ہوا کہ جس سیوریج منصوبے کو 2005 میں ’’مکمل‘‘ قرار دیا گیا تھا، اس منصوبے کے تحت تو شہر میں سیوریج پائپ بچھائے ہی نہیں گئے تھے۔ یعنی ایک ایسا منصوبہ جس پر کروڑوں روپے خرچ ہوئے، محض کاغذوں میں مکمل ہوا اور نتیجہ یہ نکلا کہ آج شہر کی گلیاں اور سڑکیں بارش کے پانی سے بھر گئیں۔ مبصرین کے مطابق یہ انکشاف گورننس کے اس ماڈل پر براہِ راست سوال ہے جس پر مریم نواز نے انگلی اٹھائی ہے اور گجرات کو گورننس کے اعتبار سے بدترین ضلع قرار دیا ہے۔
پنجاب اور گجرات کی سیاست سے واقفیت رکھنے والے جانتے ہیں کہ گجرات کا چوہدری خاندان وفاق اور پنجاب میں گزشتہ کئی دہائیوں سے برسرِاقتدار رہا ہے، اور براہِ راست حکومت میں نہ ہونے کے باوجود بھی اتحادی حکومتوں کا حصہ بن کر گجرات کے انتظامی معاملات کو اپنے ہاتھ میں لینے پر مہارت رکھتا ہے۔1990 کی دہائی میں چوہدری برادران نواز شریف کے ساتھی تھے اور ہر حکومت میں اہم عہدوں پر تعینات رہے۔ پرویز مشرف کے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد مسلسل 10 سال تک چوہدری برادران وفاق، صوبے اور ضلع کی سطح پر حکمران رہے۔سال 2008 کے انتخابات میں شکست کے باوجود چوہدری پرویز الٰہی پیپلز پارٹی کی حکومت میں نائب وزیراعظم بن گئے۔2013 سے 2018 کے دوران پہلی بار ضلع کا انتظامی کنٹرول چوہدریوں کے ہاتھ سے نکلا لیکن جلد ہی عمران خان کی حکومت میں نہ صرف ضلع بلکہ گوجرانوالہ ڈویژن کا انتظامی کنٹرول پرویز الٰہی کے ہاتھ میں آ گیا۔چوہدری پرویز الٰہی اور چوہدری شجاعت حسین کے راستے جدا ہونے کے بعد بھی گجرات کی حکمرانی چوہدریوں کے پاس ہی رہی اور اب پرویز الٰہی اور مونس الٰہی کی بجائے چوہدری سالک حسین، چوہدری شافع حسین اور چوہدری موسیٰ الٰہی کے پاس ہے۔ اس وقت مسلم لیگ ق یعنی چوہدری شجاعت حسین، ان کے بچے اور ساتھی اس وقت حکمران اتحاد کا حصہ ہیں اور اپنی سابقہ روایات کو برقرار رکھتے ہوئے وہ مقتدر حلقوں کے حامی ہیں۔ اس وجہ سے پنجاب میں مریم نواز کی حکومت ہونے کے باوجود گجرات کے انتظامی معاملات ان کے پاس ہیں۔
قومی سیاسی امور پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار افتخار احمد کا کہنا ہے کہ مریم نواز کے بیان کو سیاسی انداز سے نہیں دیکھنا چاہیے بلکہ جس گورننس کی انہوں نے بات کی ہے اس کو سامنے رکھتے ہوئے یہ سوال اٹھانا چاہیے کہ جب پرویز الٰہی نے گجرات شہر میں سیوریج بچھانے کے لیے پیسے دیے تھے تو وہ خرچ کیوں نہیں ہوئے؟ اور اگر ہوئے تو پھر پائپ کیوں نہیں ڈالے گئے؟ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’گورننس بنیادی طور پر بیوروکریسی سے تعلق رکھتی ہے۔ سیاست دان اگر حصہ کھاتے بھی ہیں تب بھی نہ تو وہ پی سی ون پر دستخط کرتے ہیں اور نہ ہی وہ آخری بل کلیئر کرتے ہیں۔ کسی بھی منصوبے میں ہیرا پھیری، کرپشن اور اس کے تباہ ہونے سے متعلق سوال اس وقت کے تعینات کیے گئے افسران سے کیا جانا چاہیے اور احتساب بھی انہی کا ہونا چاہیے۔‘ ان کا مزیدکہنا تھا کہ موجودہ صورتحال میں مریم نواز کا شکوہ اسی پس منظر میں سمجھا جا سکتا ہے۔ گویا وہ موجودہ سیلابی تباہی کو بنیاد بنا کر اس طاقتور خاندان کے ’قلعے‘ پر دستک دینا چاہتی ہیں۔
تاہم مبصرین کے بقول یہ درست ہے کہ گجرات کے انتظامی معاملات پر دہائیوں سے چوہدری خاندان قابض ہے۔ چوہدری پرویز الٰہی سے لے کر مونس الٰہی اور اب سالک حسین سے شافع حسین تک، کسی نہ کسی شکل میں گجرات چوہدریوں کی گرفت میں رہا ہے۔ مگر کیا گجرات میں سیلابی پانی سے آنے والی تباہی پر محض چوہدری خاندان کو موردِ الزام ٹھہرانا کافی ہے؟ مریم نواز خود پنجاب کی وزیر اعلیٰ ہیں اور اگر آج گجرات میں سیوریج نظام صفر ہے، بے ہنگم تعمیرات نے پانی کے راستے بند کر رکھے ہیں اور شہری بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں تو اس کی اس وقت ذمہ دار موجودہ حکومت ہے۔ مریم نواز محض الزام تراشیاں کر کے اس ذمہ داری سے اپنی جان نہیں چھڑا سکتیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق مریم نواز نے دراصل سیلابی تباہی کو جواز بنا کر گجرات پر اپنی سیاسی گرفت مضبوط کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ چوہدری خاندان کے اس روایتی قلعے میں اپنی جگہ بنائی جا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے نیا سیوریج منصوبہ شروع کرنے کا اعلان کیا، مگر سوال یہ ہے کہ جس حکومت کے تحت عوام کو ابھی تک کسی قسم ریلیف نہیں ملا، اس حکومت کے نئے منصوبوں کے وعدے کس حد تک عملی ثابت ہوں گے؟
ناقدین کے مطابق حالیہ سیلاب کے دوران گجرات کی تباہی نے یہ ثابت کر دیا کہ پنجاب میں گورننس کا بحران صرف ایک ضلع تک محدود نہیں، بلکہ یہ پورے نظام کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ اگر مریم نواز واقعی تبدیلی چاہتی ہیں تو انہیں سیاسی نعروں اور بیان بازی سے نکل کر بیوروکریسی اور بدعنوان عناصر کا کڑا احتساب کرنا ہوگا۔ بصورتِ دیگر، گجرات کی ڈوبتی گلیاں ان کی حکومت کے لئے ایک ایسا استعارہ بن جائیں گی جو آنے والے برسوں تک ان کا منہ چڑھاتی رہیں گی۔
