آڈیٹر جنرل پر حکومت کو بدنام کرنے کی سازش کا الزام کیوں لگا؟

آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی جانب سے وفاقی حکومت کو بدنام کرنے کی سازش کا الزام تقویت پکڑتا جا رہا ہے کیونکہ اب موصوف نے خود تسلیم کر لیا ہے کہ ان کی زیر نگرانی تیار کردہ رپورٹ میں بڑی خامیاں موجود ہیں۔ حکومتی حلقوں کا دعوی ہے کہ آڈیٹر جنرل کی تحریک انصاف کے لیے سیاسی ہمدردیاں تھیں لہذا اس نے حکومت کو بدنام کرنے کی سازش رچائی اور آڈٹ کے اعداد و شمار میں ہیر پھیر کیا۔ حکومتی ذرائع کا دعوی ہے کہ آڈیٹر جنرل کی تقرری میں سابق آئی ایس آئی چیف لیفٹننٹ جنرل فیض حمید نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔
اس سے پہلے حکومت نے آڈیٹر جنرل کی سالانہ رپورٹ میں 375؍ ٹریلین روپے مالیت کی بے ضابطگیوں کے انکشاف کو ایک سوچی سمجھی سازش قرار دیا تھا۔ حکومت نے آڈیٹر جنرل کی رپورٹ کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے انکوائری کا حکم دیا تھا۔ انکوائری کے دوران آڈیٹر جنرل نے تسلیم کیا کہ رپورٹ میں بڑے پیمانے پر غلطیاں موجود ہیں جو کہ ٹائپنگ سے متعلقہ ہیں۔ تاہم سرکاری ذرائع کے مطابق معاملہ محض ٹائپنگ کی غلطیوں کا نہیں بلکہ یہ ایک سوچی سمجھی سازش ہے جس کا اصل مقصد حکومت کو ہدف تنقید بنانا اور اس کی ساکھ کو مجروح کرنا تھا۔
آڈیٹر جنرل آفس نے کئی ہفتوں تک رپورٹ کا دفاع کرنے کے بعد گزشتہ ہفتے تسلیم کر لیا تھا کہ اس میں ٹائپنگ کی سنگین غلطیاں موجود ہیں، لیکن سرکار کا الزام ہے کہ یہ سب اس اعلیٰ افسر کی منصوبہ بندی تھی جو کہ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کے عہدے پر فائز یے اور تحریک انصاف سے ہمدردی رکھتا ہے۔ ذرائع کا دعوی ہے کہ اس نے حکومت کا سکینڈل بنانے کیلئے آڈٹ میں ڈنڈی ماری۔ چنانچہ حکومت نے مالی سال 2023-24 کی سالانہ آڈٹ رپورٹ پارلیمنٹ میں پیش کرنے کے بجائے مسترد کرتے ہوئے آڈیٹر جنرل آف پاکستان کو واپس بھیج دی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس رپورٹ میں مبینہ مالی بے ضابطگیوں کا حجم 3 لاکھ 75 ہزار ارب روپے بتایا گیا جو کہ غیر حقیقی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ رقم وفاقی بجٹ برائے سال 2023-24 سے27؍ گنا زیادہ ہے اور پاکستان کی مجموعی جی ڈی پی سے ساڑھے تین گنا زیادہ ہے۔
حکومت کی جانب سے اس آڈٹ رپورٹ پر یہ اعتراض بھی لگایا جا رہا تھا کہ یہ قومی اسمبلی میں پیش کیے جانے سے پہلے ہی میڈیا کی زینت کیسے بننا شروع ہو گئی تھی۔ ایک انٹیلی جنس رپورٹ کے مطابق، آڈیٹر جنرل نے اپنی سروس کے دوران سیاسی وابستگی رکھی اور پی ٹی آئی سے جڑے افسروں کو آڈٹ کے اہم عہدوں پر تعینات کیا۔ ایک موقع پر موصوف پر یہ الزام بھی گا کہ انہوں نے حساس آڈٹ کا دائرہ کار مقررہ مدت سے آگے بڑھایا تاکہ پی ٹی آئی رہنماؤں کیلئے سیاسی گنجائش پیدا کی جا سکے، جبکہ دوسری طرف اس نے بیک وقت حکومت اور عسکری قیادت کے حصوں کو ہدف بنایا۔
یہ بھی الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ گزشتہ برسوں کے دوران آڈیٹر جنرل نے اپنے ہم خیال افسران کو صوبائی حکومتوں، وفاقی محکموں اور ہائی پروفائل منصوبوں کے آڈٹ پر مامور کیا۔ حکومتی ذرائع کے مطابق، یہ تقرریاں اس نیت سے کی گئیں کہ ایسی آڈٹ پیراز اور رپورٹس تیار ہوں جو حکومت کیخلاف سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کی جا سکیں۔ مالی حکام نے آڈیٹر جنرل کی جانب سے اپنے افسروں کیلئے خصوصی الاؤنسز کی منظوری پر بھی اعتراض اٹھایا تھا، جو فنانس ڈویژن کی ہدایات کے برعکس کیا گیا فیصلہ تھا۔ بعد میں وزارتِ خزانہ نے یہ فیصلہ واپس لے کر اضافی رقم کی وصولی کا حکم دیا۔
مریم نواز نے پنجاب میں اپنی نااہلی کا اقرار کیسے کیا؟
انٹیلی جنس جائزوں میں یہ خدشات بھی ظاہر کیے گئے کہ آڈیٹر جنرل نے سابقہ اور موجودہ حکومتوں کے حساس آڈٹ ریکارڈ جمع کر رکھے ہیں، جن سے سیاسی لحاظ سے کسی بھی موزوں وقت پر لیک کر کے اپوزیشن بیانیے کو تقویت دی جا سکتی ہے۔ حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ اگرچہ ’’ٹائپنگ کی غلطی‘‘ عام بات ہے لیکن ’’375؍ ٹریلین روپے کا سکینڈل‘‘ صرف غفلت نہیں بلکہ حکومت کو بدنام کرنے کی ایک منظم سازش تھی۔ ایسے میں آڈیٹر جنرل کے خلاف سخت کاروائی کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔
