استنبول مذاکرات کے دوران افغان وفد بیک فٹ پر کیسے گیا؟

 

 

 

استنبول میں حالیہ پاک افغان مذاکرات کے دوران پاکستانی وفد نے افغان شہریوں کے دہشت گردی میں ملوث ہونے کے ٹھوس اور واضح شواہد فراہم کیے جن کی اقوام متحدہ پہلے ہی تصدیق کر چکا تھا۔ ذرائع کے مطابق ان ثبوتوں کی روشنی میں دونوں ثالث ممالک یعنی ترکی اور قطر نے بھی اپنا وزن پاکستان کے پلڑے میں ڈال دیا جس کے بعد افغانستان کو بیک فٹ پر جانا پڑ گیا۔

 

استنبول مذاکرات کے دوران پاکستانی وفد نے ان دہشت گردوں کی لسٹیں، تصاویر اور شناختی دستاویزات پیش کیں جو سکیورٹی فورسز پر حملے کے بعد جوابی کاروائیوں میں مارے گئے۔ مارے جانے والے دہشت گردوں میں سے اکثریت افغان باشندوں کی تھی، بتایا جاتا ہے کہ استنبول مذاکرات سے پہلے پاکستانی وفد نے یہ تمام دستاویزات اقوام متحدہ کو بھی جمع کروائی تھیں جس نے ان کی تصدیق کر دی تھی۔

اقوم متحدہ کو پیش کی جانے والی دستاویزات کے مطابق 19 اکتوبر 2025 کو باجوڑ میں سیکیورٹی فورسز کی کارروائی کے دوران 4 دہشت گرد مارے گئے جن میں سے 3 افغان شہری تھے، یعنی 75 فیصد دہشت گرد افغان تھے۔ ہلاک ہونے والوں میں ایک دہشتگرد کا نام ملا صدام عرف حذیفہ تھا جو کہ افغانستان کے صوبہ قندوز کا رہائشی تھا۔ ملا صدام کی موت کے بعد 24 اکتوبر کو قندوز کی جامع مسجد خاما کاری میں ایک تعزیتی مجلس منعقد ہوئی جس کی ویڈیو فوٹیج بھی موجود ہے۔ ملا صدام کے رشتہ داروں نے 26 اکتوبر 2025 کو فرانس کے شہر رینز میں واقع مسجد التقویٰ میں ایک اور تعزیتی اجتماع منعقد کیا۔ فرانس میں اس تقریب کی خبر سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد یہ پوسٹس حذف کر دی گئیں، کیونکہ ایسا کرنے والوں کو فرانسیسی حکومت کے ردِعمل کا خوف تھا۔

 

یاد رہے کہ اگست 2021 میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان میں سرحد پار دہشتگردی کے واقعات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ اپریل سے ستمبر 2025 کے دوران دہشت گرد کارروائیوں میں مارے جانے والے 267 افغان دہشت گردوں کی شناخت کی جا چکی ہے۔ افغانستان سے پاکستان میں ہونے والی حالیہ دراندازیوں میں 70 سے 80 فیصد دہشت گرد افغان شہری شناخت کیے گئے ہیں، جبکہ افغانستان میں تحریک طالبان پاکستان کے 60 سے زائد تربیتی کیمپ سرگرم ہیں۔

 

ادھر اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی 36ویں مانیٹرنگ رپورٹ نے بھی تصدیق کی ہے کہ افغان طالبان کئی پاکستان مخالف دہشتگرد تنظیموں کی سرپرستی کر رہے ہیں، جن میں تحریکِ طالبان، داعش خراسان، القاعدہ، ایسٹ ترکستان اسلامی تحریک اور ترکستان اسلامی پارٹی شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ٹی ٹی پی کے تقریباً 6 ہزار دہشت گرد افغانستان میں موجود ہیں، جنہیں افغان حکام سے مالی و عسکری مدد حاصل ہے اور وہ سرحد پار پاکستان میں دہشت گرد کاروائیوں میں ملوث ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ٹی ٹی پی اور بلوچستان لبریشن آرمی کے درمیان رابطے ہیں، جو جنوبی افغانستان کے تربیتی مراکز میں مشترکہ طور پر سرگرم ہیں۔

 

اقوام متحدہ کی مانیٹرنگ رپورٹ کے مطابق افغان طالبان کی جانب سے اپنی سرزمین کو دہشت گرد گروہوں کے استعمال سے روکنے میں ناکامی دوحہ میں ہونے والے پاک افغان معاہدے کی صریح خلاف ورزی ہے، جس کے تحت طالبان نے وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنی زمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔

تازہ شواہد سے واضح ہوتا ہے کہ نہ صرف افغان سرزمین پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال ہو رہی ہے بلکہ بڑی تعداد میں افغان شہری بھی اس میں شریک ہیں۔ اسی لیے استنبول مذاکرات میں بھی پاکستانی حکام نے یہی مطالبہ کیا کہ افغان حکومت اپنی سرزمین دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے سے روکے۔

فوج پر حملوں کے بعد عمران کی مقبولیت میں اضافہ کیوں ہوا؟

یاد رہے کہ پاکستان میں 2022 سے 2025 کے دوران افغان دہشتگردوں کی جانب سے درجنوں خودکش اور تخریبی حملے کیے گئے، جب کہ مختلف آپریشنز میں درجنوں دہشتگرد مارے گئے۔

 

Back to top button