عمرانڈو ججز نے حکومت کو باہر سے ججز لانے پر کیسے مجبور کیا؟

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار جاوید چوہدری نے کہا ہے کہ اسلام اباد ہائی کورٹ کے ججز کی جانب سے ایک سیاسی جماعت کے اعلی کار بننے کے بعد وفاقی حکومت کو مجبورا دوسری ہائی کورٹس کے ججز وہاں تعینات کرنے پڑے ہیں، اب ان ججز میں سے ایک کو چیف جسٹس اسلام اباد ہائی کورٹ بھی تعینات کر دیا جائے گا تا کہ جسٹس منصور علی شاہ کی طرح سیاست کرنے والے جسٹس محسن اختر کیانی کا راستہ روکا جا سکے۔

اپنی تازہ تحریر میں جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ حکومت اور ریاست نے مل کر بڑی مشکل سے دن رات ایک کر کے 26ویں آئینی ترمیم پاس کرائی‘ جس کا مقصد سپریم کورٹ کو کنٹرول کرنا اور جسٹس منصور علی شاہ کو چیف جسٹس بننے سے روکنا تھا‘ لیکن اس کے ساتھ ہی اسلام آباد ہائی کورٹ مزید آؤٹ آف کنٹرول ہو گئی، چناں چہ حکومت نے وہاں دو ایڈہاک ججز تعینات کر دیے جس کے بعد ججز کی تعداد دس ہو گئی۔

حکومت کا خیال تھا ہائی کورٹ میں اب بیلنس آ جائے گا لیکن یہ خام خیالی ثابت ہوئی چناں چہ پھر حکومت تین ہائی کورٹس سے تین ججز اسلام آباد لانے پر مجبور ہو گئی‘ جسٹس سرفراز ڈوگر کو لاہور‘ جسٹس خادم حسین سومرو کو سندھ اور جسٹس محمد آصف کو بلوچستان ہائی کورٹ سے لایا گیا‘ یہ تینوں ججز اسلام آباد آ چکے ہیں اور انھوں نے ہائی کورٹ میں کام بھی شروع کر دیا ہے۔  دوسری طرف وکلاء نے ہڑتالیں شروع کر دی ہیں اور ان ججوں کی عدالتوں میں پیش نہ ہونے کا اعلان بھی کر دیا ہے۔

جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ آپ دیکھ لیں ایک بحران ٹالنے کے لیے ریاست کو کتنے نئے بحرانوں سے گزرنا پڑ رہا ہے‘ عدلیہ کی فارمیشن میں یہ تبدیلی ملک میں انصاف کا مزید جنازہ نکال دے گی‘ 26 ویں ترمیم کے بعد سپریم کورٹ عملاًختم ہو چکی ہے‘ اس کا احترام اور وقار دونوں مٹی میں مل چکے ہیں اور اس میں ججز کا قصور بھی ہے۔  جج صاحبان جب اپنے منصب سے اتر کر کسی سیاسی جماعت کے معاون بن جائیں گے تو اس کا کوئی نہ کوئی نتیجہ تو نکلنا تھا اور وہ نکلا لیکن رہی سہی کسر حکومت اور ریاست نے بھی پوری کر دی‘اس نے دو گھونسلے توڑنے کے لیے پورے محل کو آگ لگا دی۔

جاوید چوہدری کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے بعد اب ہائی کورٹس کی باری ہے‘ ان میں جو تبدیلیاں کی جا رہی ہیں عین ممکن ہے ہم ان کے ذریعے بانی کو مزید دو چار سال جیل میں رکھ لیں‘ ہو سکتا ہے ہم اس مصنوعی سسٹم کو بھی مزید چند برس دھکا دے لیں لیکن اس عمل کے دوران ملک کا عدل کا نظام کہاں کھڑا ہو گا؟ آج وہ ججز جو کسی کے اشارے پر یہ سب کچھ کر رہے ہیں کل جب انھیں کوئی اشارہ کرے گا تو یہ کیا کیا نہیں کریں گے؟ ہمیں ماننا ہو گا ہم نے ایک اور رانگ ٹرن لے لیا ہے اور یہ رانگ ٹرن ہمیں اس وادی میں لے جائے گا جہاں بے انصافی اور ظلم کے ’’ذومبیز‘‘ دندناتے پھر رہے ہیں اوریہ ہماری طرف دیکھ کر بار بار پوچھ رہے ہیں اگر کل تم لوگوں کو انصاف کی ضرورت پڑ گئی تو تم کس عدالت میں جاؤ گے اور کس جج سے اپنا حق مانگو گے؟

جاوید چوہدری کہتے ہیں آپ ذرا تصور کیجیے کل اگر صدر زرداری اور میاں شہباز شریف کو انصاف چاہیے ہو گا تو کیا یہ عدالتیں اور یہ جج انھیں انصاف دے سکیں گی اور اگر انصاف کی ضرورت کسی جنرل کو پڑ گئی تو کیا ہوگا؟ وہی ہو گا جو اس وقت قیدی نمبر 804 کے ساتھ ہو رہا ہے‘ کیوں؟ کیوں کہ ہر رانگ ٹرن کا نتیجہ بہرحال یہی نکلتا ہے۔

Back to top button