پاکستان ٹرمپ اور مودی کی دوری کا کیسے فائدہ اٹھا رہا ہے؟

پاکستانی حکومت اور فوجی اسٹیبلشمنٹ امریکہ اور انڈیا کے سفارتی تعلقات میں خرابی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مسلسل انکل سام کے قریب تر ہونے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ اب اس حوالے سے یہ خبر سامنے آ رہی ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان اس ماہ کے اواخر میں دورہ اقوام متحدہ کے دوران ایک اہم ملاقات ہونے جا رہی ہے جس میں آرمی چیف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر بھی شریک ہوں گے۔
باخبر ذرائع کے مطابق وزیر اعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل عاصم منیر کے متوقع دورۂ دوحا اور ریاض کے بعد 25 ستمبر کو ان کی صدر ٹرمپ سے ملاقات کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ اس متوقع ملاقات کے ایجنڈے، وقت اور مقام کو باہمی مشورے سے حتمی شکل دی جارہی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ 23 ستمبر کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کریں گے اور عالمی رہنماؤں کے اعزاز میں روایتی استقبالیہ بھی دیں گے، ذرائع کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کے جنرل اسمبلی سے خطاب کے ایک روز بعد ان کی وزیراعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل عاصم منیر سے ایک مشترکہ ملاقات طے کی جا رہی ہے جس میں وزیر داخلہ محسن نقوی بھی شریک ہوں گے۔ یہ ملاقات 25 ستمبر کو واشنگٹن میں ہو گی۔ ملاقات کے ایجنڈے میں پاکستان اور امریکہ کے دفاعی اور تجارتی تعلقات کے علاوہ پاک بھارت تعلقات اور قطر پر اسرائیلی حملوں کے اثرات شامل ہیں۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق یہ وزیراعظم شہباز شریف کی صدر ٹرمپ سے پہلی ملاقات ہو گی۔ یہ ملاقات ایک ایسے وقت میں ہوگی جب بھارتی وزیر اعظم اور صدر ٹرمپ کے مابین مئی میں ہونے والی پاک بھارت جنگ کے بعد سے دوریاں پیدا ہو چکی ہیں اور ٹرمپ اپنے سابقہ دوست کا نام سن کر ہی بھنا اٹھتے ہیں۔ یاد رہے کہ مودی کی درخواست پر صدر ٹرمپ نے مئی میں ہونے والی پاک بھارت جنگ تو رکوا دی لیکن بعد میں بھارتی وزیراعظم نے ٹرمپ کو جنگ بندی کا کریڈٹ دینے سے انکار کر دیا تھا۔ دوسری جانب پاکستان نے جنگ بندی پر نہ صرف ٹرمپ کا شکریہ ادا کیا بلکہ ان کے لیے نوبیل امن انعام کی سفارش بھی کر دی۔
پاک بھارت جنگ بندی کے بعد سے امریکہ اور بھارت کے مابین سفارتی تعلقات میں تیزی سے گراوٹ آئی ہے۔ اسکی ایک وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ مودی نے چند ماہ پہلے صدر ٹرمپ کی جانب سے امریکہ آنے کی دعوت مسترد کر دی تھی چونکہ انہیں خدشہ تھا کہ اس ملاقات کے دوران پاکستانی فیلڈ مارشل سید عاصم منیر بھی موجود ہوں گے۔ چنانچہ اب امریکہ اور بھارت کے تعلقات اتنے خراب ہو چکے ہیں کہ امریکہ نے بھارتی مصنوعات پر 50 فیصد سے زائد ٹیرف عائد کر دیا ہے جو خطے کے کسی بھی ملک کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ اس دوران اپنی ناراضی کا کھلا اظہار کرنے کے لیے امریکی صدر ٹرمپ نے بھارت کا ایک طے شدہ دورہ منسوخ کر دیا تھا جسے ایک بڑا واقعہ قرار دیا گیا تھا۔
امریکی میڈیا کے مطابق ٹرمپ اب بھی مودی سے اس وجہ سے ناراض ہیں کہ انہوں نے انکو جنگ بندی کا کریڈٹ نہیں دیا امریکی میڈیا نے اس حوالے سے کچھ اور واقعات بھی رپورٹ کیے ہیں جن کی وجہ سے ٹرمپ اور مودی کے تعلقات بہت زیادہ خراب ہو گئے۔ نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاک بھارت جنگ بندی کے بعد 17 جون 2025 کو مودی کیساتھ ایک فون کال کے دوران ٹرمپ نے انہیں بتایا کہ وہ پاک بھارت جنگ بندی کروانے پر کتنا فخر محسوس کرتے ہیں۔ انہوں نے مودی کو بتایا کہ اسی لیے پاکستان انہیں نوبیل امن انعام کے لیے نامزد کرنے جارہا ہے۔ نیو یارک ٹائمز کے مطابق جو لوگ اس فون کال بارے جانتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کا مقصد یہ تھا کہ مودی بھی پاکستان کی طرح انہیں نوبیل انعام کے کیے نامزد کریں۔
لیکن حیرت انگیز طور پر مودی نے نوبیل انعام کیلئے نامزدگی کی بجائے صدر ٹرمپ کو بتایا کہ پاکستان اور بھارت کی جنگ بندی سے امریکا کا کوئی تعلق نہیں تھا کیونکہ دونوں ممالک نے براہ راست جنگ روکنے کا فیصلہ کیا تھا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مودی کا یہ رویہ ٹرمپ کے نزدیک دھوکہ بازی تھی کیونکہ جنگ بندی کی درخواست مودی نے ہی کی تھی جس پر پاکستان نے بعد میں امریکہ کے اصرار پر اتفاق کیا تھا۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق اس فون کال نے دونوں رہنمائوں کےمابین تعلقات کار کو تلخ بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔
نیویارک ٹائمز کے مطابق ٹرمپ نے مودی کو 35 منٹ کی اس فون کال میں فوری امریکہ آنے کی دعوت بھی دی۔ یہ کال تب کی گئی جب ٹرمپ کینیڈا میں گروپ آف 7 صنعتی ممالک کی کانفرنس سے نکلنے کے بعد ایئر فورس ون نامی جہاز پر اپنے ملک واپس جا رہے تھے۔ اس اجلاس میں مودی بھی شریک تھے۔ لیکن مودی نے ٹرمپ کی یہ دعوت مسترد کر دی۔ مودی کو شک تھا کہ شاید صدر ٹرمپ انہیں پاکستانی آرمی چیف کے ساتھ مصافحے پر مجبور کرنے کی کوشش کریں، جنہیں وائٹ ہاؤس میں دوپہر کے کھانے پر مدعو کیا گیا تھا۔
نیویارک ٹائمز کا ایک سینئر بھارتی اہلکار کے حوالے سے کہنا تھا کہ بعد میں ٹرمپ نے مودی سے دوبارہ فون پر رابطے کی کوشش کی لیکن وہ آگے پیچھے ہو گئے۔ مودی کو خدشہ تھا کہ ٹرمپ فون پر ہونے والی بات کا بتنگڑ بنا کر اپنی مرضی کی بات سوشل میڈیا پر پوسٹ کر دیں گے۔ ٹرمپ نے اس کے باوجود بھی مودی سے کئی بار رابطے کی کوشش کی، لیکن مودی نے انہیں کوئی جواب نہیں دیا۔
مودی اور صدر ٹرمپ کے تعلقات ایسے وقت میں خرابی کا شکار ہوئے جب بھارت اور امریکہ کے مابین تجارتی مذاکرات چل رہے تھے جو کہ انتہائی اہمیت کے حامل تھے۔ چنا نچہ ٹرمپ نے غصے میں بھارت پر 50 تجارتی فیصد ٹیکس عائد کر دیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ بھارت اب امریکا کے دشمنوں یعنی چین اور روس کے قریب ہو رہا ہے۔
