عمران خان کا بنایا ہوا ہائبرڈ نظام حکومت شہباز کو کیسے راس آیا؟

نواز شریف کے قریبی ساتھی اور وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے امریکی صدر ٹرمپ اور فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کی ملاقات کو ہائبرڈ ماڈل آف گورننس کی ایک کامیاب مثال قرار دیتے ہوئے تسلیم کر لیا ہے کہ پاکستان میں سویلین بالادستی ماضی کا قصہ بن چکی ہے اور فوجی اسٹیبلشمنٹ ہی اصل فیصلہ ساز ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ماضی میں جو اصطلاح پہلے صرف تجزیہ کار موجودہ نظامِ حکومت کی انوکھی نوعیت کو بیان کرنے کے لیے استعمال کرتے تھے، وہی اصطلاح پاکستانی وزیر دفاع نے کھلم کھلا موجودہ نظام حکومت کے لیے استعمال کی ہے۔ لیکن یاد رہے کہ ہائبرڈ ماڈل آف گورننس عمران خان کے دور میں متعارف ہوا تھا جب اصل فیصلہ ساز آرمی چیف جنرل قمر باجوہ اور آئی ایس آئی چیف لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید ہوا کرتے تھے، جبکہ عمران ایک ڈمی وزیراعظم کا کردار ادا کرتے تھے۔ تاہم عجیب بات ہے کہ اب عمران کی تحریک انصاف ہی فوجی اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کی آپسی قربت کی سب سے بڑی ناقد ہے۔
ہائبرڈ نظام حکومت کی اصطلاح اُس غیر رسمی حکومتی بندوبست کو بیان کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے، جس کے تحت فوج ایک منتخب حکومت پر خاصا اثر رکھتی ہے اور ریاستی امور چلانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر وزیر دفاع خواجہ آصف نے عاصم منیر کی امریکی ٹرمپ سے ملاقات کو ’ہائبرڈ ماڈل آف گورننس‘ کی کامیابی قرار دیتے ہوئے لکھا کہ معیشت کی بحالی، بھارت کی شکست، امریکا کے ساتھ تعلقات میں بہتری، یہ تمام انقلابی تبدیلیاں وزیر اعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل عاصم منیر کے درمیان تعاون اور اسلام آباد اور راولپنڈی کے درمیان شاندار تعلقات کی بدولت ممکن ہوئی ہیں۔
لہکم یہ سوشل میڈیا پوسٹ جلد ہی موضوعِ بحث بن گئی، اور یہ سوال کیا جانے لگا کہ خواجہ آصف کا مطلب کیا تھا؟، سوشل میڈیا پر کچھ لوگوں نے خواجہ آصف سے یہ بھی پوچھا کہ کیا جمہوریت کا دعویٰ کرنے اور سول بالادستی کا نعرہ لگانے والی مسلم لیگ کے لیڈر کے لیے ایسے خوشی کا اظہار کرنا مناسب ہے یا نہیں؟۔ بعد ازاں ’عرب نیوز‘ کو ایک انٹرویو میں وزیر دفاع خواجہ آصف نے اپنے الفاظ کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ میں نے پاکستان میں ’ہائبرڈ رجیم‘ کی موجودگی کو صاف گوئی سے تسلیم کیا ہے جس پر کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔
خواجہ آصف نے اس سول-ملٹری ہائبرڈ نظام کو ’شراکت داری کا نظام‘ قرار دیا، اور کہا کہ اگرچہ یہ مثالی جمہوری حکومت نہیں، لیکن یہ ’کمال کر رہی ہے‘۔ انہوں نے کہا کہ یہ نظام ایک عملی ضرورت ہے، جب تک کہ پاکستان معیشت اور طرزِ حکمرانی کے مسائل سے باہر نہیں نکل جاتا۔ سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے بڑبولے سیاستدان نے یہاں تک کہا کہ اگر 1990 کی دہائی میں نواز شریف کے ادوار میں ایسا ماڈل اپنایا جاتا تو آج ہمارے حالات بہت بہتر ہوتے۔ انہوں نے کہا کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی حکومت کے درمیان ٹکراؤ جمہوریت کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے۔
معروف تجزیہ کار ڈاکٹر رسول بخش رئیس کہتے ہیں کہ عمران خان کو ہٹانے کے بعد یہ تیسرا ’ہائبرڈ نظام‘ حکومت ہے، فرق یہ ہے کہ جنرل ضیا اور جنرل مشرف نے بڑی سیاسی جماعتوں کو توڑ کر اپنے فرنٹ بنائے تھے، لیکن اس بار دونوں بڑی جماعتیں، یعنی پیپلز پارٹی اور نون لیگ، خود سیاسی پردے کے طور پر یہ خدمات انجام دے رہی ہیں۔ ڈاکٹر رئیس نے کہا کہ اس کی ایک ہی وجہ ہے کہ مخالف کو اقتدار سے دور رکھنے اور خود کو اقتدار میں برقرار رکھنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کے سائے میں ہی چلا جائے تاکہ کوئی غلطی نہ ہو۔
عمران خان کے لیے ہمدردیاں رکھنے والے تجزیہ کار کہتے ہیں کہ۔فوجی اسٹیبلشمنٹ نے الیکشن 2024 میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کو اقتدار دلا کر انہیں ’ہائبرڈ نظام میں ایک ضمیمے‘ کی حیثیت تک محدود کر دیا، اب ان جماعتوں کا سیاسی سرمایہ ان کے انسداد اسٹیبلشمنٹ بیانیے کے ساتھ دفن ہو چکا ہے۔ انکا کہنا تھا کہ فی الحال، شریف خاندان، زرداری خاندان اور اسٹیبلشمنٹ کی ترجیح یہ ہے کہ عمران خان کی قیادت اور انکی جماعت کو غیر مؤثر بنا دیا جائے۔ ان کے مطابق دلچسپ بات یہ یے کہ ٹرمپ نے پاکستانی صدر یا وزیراعظم کی بجائے آرمی چیف سے ملاقات کرنے کو ترجیح دی۔
انکا کہنا تھا کہ دنیا کافی عرصے سے جانتی ہے کہ طاقت کا مرکز کہاں ہے اور کن کے ہاتھوں میں ہے۔
9 مئی مقدمات: عمران خان کی ضمانت کی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ
تجزیہ کار احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ خواجہ آصف پہلے فرد نہیں جس نے ’ہائبرڈ سسٹم آف گورننس‘ کے وجود کو تسلیم کیا ہے۔ ان کے مطابق عمران خان نے بارہا تسلیم کیا ہے کہ فوج کا کلیدی فیصلوں کردار ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ کسی کو نہیں بھولنا چاہیے کہ ہمارے پاس ایک آئین موجود ہے، اور اس سے انحراف کے سنگین نتائج نکلیں گے، تاہم، میں سمجھتا ہوں کہ سیاست دانوں اور فوج کو قومی سلامتی کمیٹی میں بیٹھ کر قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے کے لیے درمیانہ اور طویل المدتی لائحہ عمل طے کرنا ہوگا۔