جنسی مجرمان کے نیفوں میں پستول چلنے کے واقعات میں اضافہ

پنجاب کے مختلف اضلاع میں راہ چلتی خواتین سے چھیڑ چھاڑ کرنے اور دیگر جنسی جرائم میں ملوث ملزمان کی شلوار کے نیفوں میں پستول چلنے کے واقعات میں حیرت انگیز حد تک اضافہ ہو گیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پولیس کے ہاتھوں گرفتاری سے بچنے کی کوشش میں جنسی جرائم میں ملوث ملزمان اپنے نیفوں میں اڑسی پستولیں چلنے کے باعث عضو تناسل سے محروم ہو رہے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نیفوں کی پستولیں آستین کے سانپ پر ٹھیک ٹھیک نشانے لگا رہی ہیں۔

ان واقعات میں اضافہ تب ہوا جب مریم نواز کی حکومت نے ڈی آئی جی سہیل ظفر چھٹہ کی زیر قیادت کرائم کنٹرول ڈیپارٹمنٹ یعنی سی سی ڈی تشکیل دیا۔ اعداد و شمار کے مطابق قتل، ڈکیتی اور زیادتی جیسے جرائم پر قابو پانے کے لیے سی سی ڈی کے قیام کے بعد سے صوبے میں پولیس مقابلوں میں 35 فیصد تک اضافہ ہو گیا ہے۔ ان مقابلوں میں ملزمان یا تو مارے جاتے ہیں یا ادھ موئے ہو جاتے ہیں۔ پنجاب میں نیفوں میں پستولیں چلنے کے علاوہ گرفتار شدہ ملزمان فرار ہونے کی کوشش میں بڑی تعداد میں مارے جا رہے ہیں۔ کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب پنجاب کے مختلف شہروں میں ڈکیتی اور زنا جیسے جرائم میں ملوث گرفتار ملزمان کو ان کے ساتھی پولیس کی حراست سے چھڑانے کی کوشش میں مروا نہ دیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ آج تک کسی بھی ملزم کے ساتھی اسے پولیس کی حراست سے چھڑانے میں کامیاب نہیں ہوئے، بلکہ اس کی موت کا ہی باعث بنے ہیں۔ ان واقعات نے جرائم پیشہ افراد پر دہشت اور خوف طاری کر دیا ہے جو کہ پنجاب پولیس کا بنیادی مقصد ہے۔

ساڑھے چار ہزار پولیس اہلکاروں پر مشتمل سی سی ڈی کا دائرہ کار تحصیل کی سطح تک پھیلا ہوا ہے، جہاں یہ ڈرون نگرانی، ڈیجیٹل ڈیٹا بیس، اور جدید کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹمز کے ذریعے کام کر رہی ہے۔ یہ فورس اپنے قیام کے بعد سے اب تک 1000 سے زائد "پولیس مقابلے” کر چکی ہے جن میں 200 سے زائد ملزمان ہلاک اور سینکڑوں ہاف فرائی یعنی زخمی ہو چکے ہیں۔ پولیس کی زبان میں فل فرائی کسی جرائم پیشہ شخص کو مقابلے میں پار کرنے کو کہتے ہیں جب کہ ہاف فرائی زخمی کرنے کو کہتے ہیں۔

اس وقت پنجاب پولیس کے ہاتھوں ایسے مجرم فل اور ہاف فرائی ہو رہے ہیں جو کمسن بچوں یا خواتین کیساتھ ریپ جیسا سنگین جرم کرتے ہیں۔ عمومی طور پر مجرموں کو فل اور ہاف فرائی کرنے کا ٹاسک پی ایس پی افسر کو نہیں بلکہ رینکر پولیس افسر کو سونپا جاتا ہے۔ پولیس مقابلوں کے لیے زیادہ تر رات کی تاریکی یا پھر سحری کا چناؤ کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد مجرم کو کسی سنسان جگہ لے جا کر فرائی کر دیا جاتا ہے۔ عموما فرائی کرنے کے لیے سرکاری اسلحہ استعمال نہیں کیا جاتا بلکہ پرائیویٹ اسلحے کے ساتھ یہ کام کیا جاتا ہے۔ ایک احتیاط یہ بڑھتی جاتی ہے کیا زیر حراست ملزم کا عبوری چالان عدالت میں پیش ہونے سے قبل ہی اسے فل یا ہاف فرائی کر دیا جاتا ہے۔

جن مجرموں کی شلواروں کے نیفوں میں پستولیں چل رہی ہیں ان کو دراصل ہاف فرائی کیا جا رہا ہے تاکہ ان کا ہتھیار دوبارہ انہیں تنگ نہ کرے اور وہ آگے کسی خاتون کو تنگ کرنے کے قابل نہ رہیں۔ قانونی ماہرین کے مطابق کمزور پراسیکیوشن کی وجہ سے اکثر سنگین جرائم میں ملوث ملزمان عدالتوں سے رہا ہو جاتے ہیں، لہذا متاثرین کو سستا اور فوری انصاف فراہم کرنے کے لیے بدکاروں کو پولیس مقابلوں میں فل یا ہاف فرائی کر دیا جاتا ہے۔ اسوقت شلواروں کے نیفوں میں پستولیں چلنے کے واقعات سوشل میڈیا پر طنزیہ تبصروں کا باعث بن رہے ہیں۔

پچھلے چند ماہ کے واقعات پر نظر دوڑائی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ شلوار کے نیفے میں پستول چلنے کا پہلا واقعہ 25 جولائی کو قصور میں پیش آیا، جب ایک ویڈیو میں ایک نوجوان ایک کمسن بچی کے ساتھ نازیبا حرکت کرتا دکھائی دیا۔ پولیس نے دو روز کی کوششوں کے بعد 27 جولائی کو ملزم کو گرفتار کیا تو مزاحمت کے دوران اس کا پستول اپنے ہی نیفے میں چل گیا جس سے اسکا ہتھیار زخمی ہو گیا اور اب استعمال کے قابل نہیں رہا۔ اس کے بعد 22 اگست کو قصور کی ایک اور ویڈیو وائرل ہوئی۔ ملزم کو گرفتار کرتے وقت پھر وہی صورتحال پیش آئی اور پستول چلنے سے وہ اپنے عضوِ تناسل سے محروم ہو گیا۔

مریم نواز کو ہر شے پر اپنی تصویر لگوانے کا شوق کیوں ہے؟

 

24 اگست کو ملتان کے حرم گیٹ علاقے میں ایک طالبہ سے نازیبا حرکت کرنے والا ملزم پولیس گرفتاری سے بچتے ہوئے اپنا ہی پستول نیفے میں چلنے سے زخمی ہو گیا۔ 31 اگست کو وہاڑی میں خاتون سے چھیڑ چھاڑ کے ایک ملزم نے پولیس پر فائر کرنے کے لیے پستول نکالا لیکن وہ پولیس پر چلنے کی بجائے الٹا اس کے اپنے نیفے میں چل گیا، اور ملزم ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔ 2 ستمبر کو لاہور میں 8 سالہ بچی سے زیادتی کے کرنے والا ملزم بھی گرفتاری کے دوران اپنا ہی پستول چلنے سے اپنے عضو تناسل سے محروم ہو گیا۔ 5 ستمبر کو سیالکوٹ میں ماں بیٹی کے ساتھ نازیبا حرکت کرنے والا عرفان عرف فورمین پولیس کے ہاتھوں گرفتاری کے دوران نیفے میں پستول چلنے سے اپنے نازک عضو سے محروم ہو گیا۔ خواتین سے چھیڑ چھاڑ کرنے والے یہ سارے ملزمان ہاف فرائی قرار پائے۔

تاہم پنجاب میں زیادتی جیسے جرائم میں ملوث مجرمان کے فل فرائی ہونے کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ حال ہی میں لاہور میں ڈکیتیوں کے دوران خواتین سے اجتماعی زیادتی کے واقعات رپورٹ ہوئے۔ ڈکیتی کے دوران ریپ کرنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ متاثرین شرم کے مارے پرچہ ہی درج نہ کروائیں۔ یعنی نہ تو پولیس میں رپورٹ درج ہو گی اور نہ ہی ڈکیتوں کا پیچھا کیا جائے گا۔
29 مئی 2025 کو لاہور کے علاقے چوہنگ میں پولیس اور ڈاکوؤں کے درمیان مقابلے میں تین ڈاکو اپنی ہی فائرنگ سے فل فرائی ہو گئے۔ پولیس کے مطابق یہ ڈاکو ڈکیتی کے دوران زیادتی کے ایک کیس میں ملوث تھے۔ یکم اگست کو چوہنگ ہی میں چار ڈاکووں نے شوہر کے سامنے اس کی بیوی کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی۔ بعد میں پولیس کارروائی کرتے ہوئے ان کے ٹھکانے تک پہنچی تو چاروں ملزمان فل فرائی کر دیے گئے۔

Back to top button

Adblock Detected

Please disable the adblocker to support us!