‘میرا جسم میری مرضی’ کے نعرے کی تشریح سامنے آگئی

آٹھ مارچ کو ملک بھر میں ہونے والے عورت مارچ کی منتظمین نے پہلی مرتبہ ملا

حضرات کی جانب سے متنازع قرار دیے جانے والے نعرے ‘میرا جسم میری مرضی’ کی باقاعدہ تشریح کرتے ہوئے اس پر قائم رہنے کا اعلان کیا ہے۔

یاد رہے کہ رواں برس عورت مارچ رکوانے کے لیے وفاقی وزیر برائے مذہبی امور کی جانب سے وزیرِ اعظم عمران خان کو یہ خط لکھا گیا کہ اس مارچ کی اجازت نہ دی جائے کیونکہ اس مارچ میں ’معاشرتی اقدار، حیا و پاکدامنی، حجاب اور مذہب کا مذاق اڑایا جاتا ہے جس کی اجازت ہرگز نہیں ہونی چاہیے۔‘ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ عورت مارچ کے دوران میرا جسم میری مرضی جیسے بیہودہ نعرے لگائے جاتے ہیں۔

لیکن عورت مارچ کے منتظمین نے اس برس باقاعدہ اپنے متنازعہ نعرے کی تشریح کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ملا حضرات ’میرا جسم، میری مرضی‘ کے نعرے کی تشریح ہی غلط کرتے ہیں۔ انکے مطابق اس نعرے کا اصل مطلب تو یہ ہے کہ اگر جسم ہمارا ہے تو اس پر مرضی بھی ہماری ہونی چاہیے۔ کوئی اسے ہماری مرضی کے بغیر ہاتھ نہ لگائے، کوئی ہمارا ریپ نہ کرے، کوئی ہمیں ہر سال ہماری مرضی کے بغیر بچے پیدا کرنے کو نہ کہے، ہمیں اپنے خاوند سے ہم بستری کرنی ہو تو اس میں بھی ہماری مرضی شامل ہو۔

پاکستان میں خواتین کے حقوق کیلئے انسانی حقوق کی تنظیموں نے ہمیشہ کلیدی کردار ادا کیا ہے، خواتین کی اہمیت اُجاگر کرنے اور حقوق کی بحالی کیلئے ہر سال 8 مارچ کو عالمی یوم خواتین منایا جاتا ہے جس کے دوران مختلف شہروں میں مارچ کیے جاتے ہیں۔ ماضی کی طرح 8 مارچ 2022 کو بھی عالمی یوم خواتین کے موقع پر پاکستانی عورتوں نے دارالحکومت اسلام آباد، سندھ کے دارالخلافہ کراچی اور پنجاب کے لاہور سمیت دیگر شہروں میں مارچ نکالے۔

مارچ میں شامل شرکا نے مختلف نعروں سے سجے پوسٹرز، پلے کارڈز اور بینرز اُٹھا رکھے تھے، جن کے ذریعے اپنے مطالبات پیش کیے اور خواتین کو بھی مرد حضرات جیسے یکساں مواقع اور حقوق فراہم کرنے کے مطالبات کیے۔

پاکستان میں گذشتہ کچھ عرصے سے ہر سال منعقد ہونے والے عورت مارچ پر کچھ طبقوں کی طرف سے تنقید کی جاتی ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ عورت مارچ ہونا ہی نہیں چاہیے تو کسی کو اس مارچ کے احتجاج کے طریقہ کار پر اعتراض ہے۔ کچھ لوگ ایسے ہیں جنھیں اس مارچ کے کچھ نعرے نہیں پسند آتے۔ عوام کے ساتھ ساتھ انتظامیہ کی جانب سے بھی اس مارچ کو آخری دن تک اجازت نامے جاری کرنے کے حوالے سے بھی مسائل کا سامنا رہتا ہے۔

اس سال بھی کچھ ایسی ہی صورتحال سامنے آئی جب لاہور اور اسلام آباد کی انتظامیہ نے مخصوص سڑکوں پر عورت مارچ کی اجازت نہ دی تو منتظمین کو عدالت سے رجوع کرنا پڑا جس کے بعد انھیں سکیورٹی فراہم کرنے اور مارچ کرنے کی اجازت دی گئی۔
دوسری جانب لاہور، کراچی اور اسلام آباد میں عورت مارچ کے شرکا نے تخلیقی پوسٹرز اور بینرز کے ذریعے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے پُرامن طریقے سے اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا۔

خواتین نے اپنے حقوق کے لیے مظاہرے کے دوران دلچسپ نعروں والے پوسٹرز بھی اٹھا رکھے تھے جن پر خواتین کو کنٹرول کرنے کا جنون، بلوچ خواتین سے اظہار یکجہتی، بلوچ خواتین سے اظہار یکجہتی، نفرت کو روکنے کی کوشش، لاپتہ ہونے والے بچوں کی ماؤں سے اظہار یکجہتی، درندوں کی حفاظت کرنے والے اپنے ہی خاندان کے خلاف احتجاج کے نعرے درج تھے۔ اس کے علاوہ مساوی حقوق کے متعلق بھی نعرے نظر آئے جن میں خواتین کا اتحاد اور ساتھ، اپنے حقوق کے لیے آواز اُٹھانا، احترام کے لیے آواز بلند کرنا لباس اور بنیادی حقوق کا مطالبہ، عورت مارچ سے ڈرنے والوں کے نام، آزادی زندگی کا حق، نامناسب لطیفوں کے خلاف احتجاج، عورت پر حکمرانی کے خلاف آواز اُٹھانا، لوگوں کی سوچ کی عکاسی کے متعلق بات کی گئی تھی۔

خواتین نے مظاہرے کے دوران یہ نقطہ بھی اٹھایا ہے کہ ہمارا خاندانی نظام جتنا بھی مثالی ہو جائے، دنیا بدل رہی ہے، کوئی نظام بھی ملک کی آدھی آبادی کو گھر کے اندر قید کر کے روٹی پوری نہیں کر سکتا، تیس چالیس سال پہلے تک پاکستان کے بڑے شہروں میں کسی دکان کے کاوئنٹر کے پیچھے، کسی بینک میں، کسی پولیس سٹیشن، سرکاری یا نجی دفتر میں شاید ہی کوئی عورت نظر آتی تھی۔ کبھی کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ گھر سے بہن کے ہاتھ کی چائے اور ماں کے ہاتھ کے استری کیے ہوئے کپڑے پہن کر جب دفتر جائیں گے تو انکی ایک باس عورت ہوگی۔

Interpretation of the slogan My body is my will came to the fore

Back to top button