کیا بیرسٹر گوہر خان کی چیئرمین شپ خطرے میں ہے؟

تحریک انصاف کے اندرونی حلقوں میں افواہ گرم ہے کہ پارٹی چیئرمین بیرسٹر گوہر خان کی چیئرمین شپ خطرے میں ہے جس کی بنیادی وجہ ان کے چند حالیہ غیر ذمہ دارانہ بیانات مفاہمت ہیں جو عمران خان کی پالیسی سے مطابقت نہیں رکھتے۔ دوسری جانب تجزیہ کاروں کے مطابق پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت ’ناکام احتجاجی سیاست‘ سے تھک چکی ہے اور کوئی درمیانی راستہ تلاش کر رہی ہے، لیکن بانی چیئرمین اس میں ’رکاوٹ‘ ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ اگر ان کو مسلسل جیل ہی میں رہنا ہے تو حکومت کے ساتھ کسی مفامت کی کوئی ضرورت نہیں۔

لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عمران خان کے ساتھ مفاہمت کا فیصلہ موجودہ حکومت تو کر ہی نہیں سکتی چونکہ اصل فیصلہ ساز تو طاقتور فوجی اسٹیبلشمنٹ ہے۔ اسی لیے عمران بھی مسلسل یہی راگ لاپ رہے ہیں کہ وہ حکومت کے ساتھ نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بات چیت کریں گے۔ لیکن فوجی ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف تین مرتبہ وضاحت کے ساتھ بتا چکے ہیں کہ فوج ایک غیر سیاسی ادارہ ہے جس کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں، لہذا اگر کسی نے کوئی بات چیت کرنی ہے تو حکومت اور وزیراعظم کے ساتھ کرے۔

حال ہی میں پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر خان کی جانب سے ’9 مئی کے حملوں کو غلط‘ قرار دینے سے یہ تاثر پیدا ہوا تھق کہ شاید  عمران خان کی جماعت بالاخر معذرت کی جانب بڑھ رہی ہے، تاہم پارٹی سیکریٹری جنرل سلمان اکرم راجہ نے عمران خان کی پالیسی کے عین مطابق اس بیان کو ’حقائق کے برعکس‘ قرار دیتے ہوئے واضح کر دیا کہ تحریک انصاف کا موقف آج بھی وہی ہے جو عمران خان نے ہمیشہ پیش کیا ہے۔

9 مئی 2023 کو عمران خان کی اسلام آباد سے گرفتاری پر پی ٹی آئی کے احتجاج کے دوران ملک کے مختلف شہروں میں فوجی تنصیبات پر باقاعدہ پلاننگ کے تحت حملے کیے گئے جس کے بعد پی ٹی آئی قیادت اور رہنماؤں سمیت سینکڑوں کارکنوں کے خلاف مقدمات درج ہوئے۔ سب سے زیادہ مقدمات مختلف چھاؤنیوں میں درج ہوئے جبکہ 102 ملزمان کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمات چلائے جانے کے بعد فیصلے سنائے جا چکے ہیں۔

حالیہ ہفتوں میں مختلف شہروں میں انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالتوں نے 9 مئی کے واقعات میں ملوث ہونے پر تحریک انصاف کے متعدد قانون سازوں اور درجنوں عہدیداروں کو سزائیں بھی سنائی ہیں۔

اسی دوران چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر خان نے 20 اگست کو میڈیا کو دیے گئے اپنے بیان میں کہا: ’ہم فرشتے نہیں تھے، ہم سے غلطیاں ہوئی ہوں گی، نو مئی غلط تھا، نہیں ہونا چاہیے تھا، آئندہ بھی نہ ہو۔‘ ان کا مزید کہنا تھا: ’عمران خان نے اور ہم سب نے اس کی مخالفت کی اور استدعا کی کہ شفاف تحقیقات کریں، قانون کے مطابق ٹرائل کریں۔‘

بیرسٹر گوہر کے اس بیان کے بعد پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات شیخ وقاص اکرم نے وضاحتی بیان جاری کرتے ہوئے: ’تحریک انصاف یہ وضاحت کرنا ضروری سمجھتی ہے کہ بیرسٹر گوہر کے جس بیان کو میڈیا میں پارٹی موقف کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، وہ دراصل حقائق کے برعکس اور توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے۔‘ انہوں نے کہا: ’پارٹی کی جانب سے کسی قسم کا سرکاری بیان یا معذرت نامہ جاری نہیں کیا گیا۔ تحریک انصاف کا موقف آج بھی وہی ہے جو عمران خان نے ہمیشہ پیش کیا ہے۔‘ بقول شیخ وقاص اکرم: ’ہم یہ باور کروانا چاہتے ہیں کہ جو تاثر دیا جا رہا ہے کہ پارٹی نے کسی قسم کی معذرت کی ہے یا کسی دباؤ کے تحت یہ قدم اٹھایا ہے۔ یہ سراسر غلط اور گمراہ کن ہے۔ پاکستان تحریک انصاف نے ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا اور نہ ہی ایسا کوئی ارادہ رکھتی ہے۔‘ انہوں نے کہا: ’ہم اپنے موقف پر قائم ہیں کہ یہ ایک ’فالس فلیگ آپریشن‘ تھا، جس کا مقصد  عوام کو گمراہ کرنا اور پارٹی کے خلاف پروپیگنڈا کرنا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف قوم کو یقین دلاتی ہے کہ ہمارا بیانیہ، ہمارا موقف اور ہماری جدوجہد عمران خان کے نظریے اور موقف کے عین مطابق ہے۔‘

اپنی ایک اور پوسٹ میں شیخ وقاص نے لکھا: ’تحریک انصاف کے قائم مقام چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان نے پارٹی موقف پیش کرتے ہوئے میڈیا سے گفتگو میں واضح کیا کہ نو مئی مقدمات میں پارٹی رہنماؤں اور ورکرز کو جعلی سزائیں دی جا رہی ہیں۔ نو مئی ایک سانحہ تھا جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔ عمران خان نے ہمیشہ اس کی مذمت کی۔ جو ہوگیا اس کو چھوڑ کر آگے بڑھنا چاہیے اور بے گناہ افراد کو انصاف فراہم کیا جائے۔‘ انہوں نے مزید لکھا: ’میڈیا میں اس بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جانا افسوس ناک ہے۔ ہر پاکستانی کا یہی مطالبہ ہے کہ انصاف فراہم کیا جائے۔‘

پارٹی چیئرمین کے بیان اور سیکریٹری جنرل کی وضاحت سے یہ قیاس آرائیاں ہونے لگیں کہ شاید پی ٹی آئی میں کوئی اختلافات چل رہے ہیں، اس سلسلے میں موقف کے لیے پاکستان تحریک انصاف کے بیرون ملک مقیم رہنما زلفی بخاری سے رابطہ کیا گیا، جنہوں نے ’اختلافات‘ کے حوالے سے تو کچھ نہیں کہا، تاہم ان کا کہنا تھا: ’تحریک انصاف کے ہر رہنما نے نو مئی کے حملوں کی مذمت کی ہے، لیکن ساتھ ہی ہم نے ایک آزاد عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے تاکہ ملک دیکھ سکے کہ اصل مجرم کون ہیں۔‘

زلفی بخاری کا مزید کہنا تھا کہ ’جھوٹا بیانیہ بنانا اور بے گناہ لوگوں کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنانا ایک بہت ہی قلیل مدتی فائدہ ہے۔‘

سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق تحریک انصاف میں اس وقت تقسیم دکھائی دیتی ہے اور کچھ پارٹی رہنماؤں کے بیانات دیگر قیادت کے لیے مسائل پیدا کر دیتے ہیں۔ حال ہی میں گنڈا پور نے لاہور میں ’آر یا پار تحریک‘ کا اعلان کیا، لیکن بیشتر پارٹی قیادت اس اعلان کے بارے میں لاعلم تھی۔ سیاسی تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ پارٹی قیادت ’احتجاجی سیاست‘ سے تھک چکی ہے اور درمیان کا راستہ نکالنا چاہتی ہے، لیکن بانی چیئرمین اس میں ’رکاوٹ‘ ہیں۔

Back to top button