کیا KP میں عمران خان کا 13 سالہ اقتدار ختم ہونے والا ہے؟

عمران خان کی جانب سے علی امین گنڈا پور کو وزارت اعلی سے ہٹائے جانے کے بعد سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا یہ سیٹ دوبارہ تحریک انصاف کو مل پائے گی یا مولانا فضل الرحمن کی جمعیت علمائے اسلام اس پر قابض ہو جائے گی۔ سیاسی تجزیہ کار اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ شاید عمران خان ایک بڑی غلطی کر بیٹھے ہیں جسکے نتیجے میں خیبر پختون خواہ میں ان کی جماعت کا 13 سالہ اقتدار ختم ہو سکتا ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق عمران نے گنڈاپور کو ہٹا کر ایک بڑا سیاسی جوا کھیلا ہے جسکے اثرات نہ صرف تحریک انصاف بلکہ مجموعی طور پر ملک کے سیاسی نظام، وفاقی ڈھانچے اور سول ملٹری تعلقات پر بھی پڑیں گے۔ گنڈا پور کو فوجی اسٹیبلشمنٹ کا ایجنٹ ہونے کے الزام میں فارغ کیا جا رہا ہے لیکن یہ خدشہ بھی پیدا ہو گیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ عمران خان کے اس فیصلے کو کیش کرواتے ہوئے تحریک انصاف سے وزارت اعلی ہی چھین لے۔ عمران خان کی جانب سے گنڈاپور کی جگہ اپنے وفادار طالبان نواز سہیل آفریدی کو وزیراعلی بنانے کا جوا کامیاب ہوتا ہے یا نہیں، لیکن دونوں صورتوں میں پاکستان کی سیاست ایک نئے موڑ پر آ کھڑی ہو گی۔ یا تو عمران خان کے خواب کے مطابق ایک ’’انقلاب‘‘ برپا ہوگا، یا پھر تحریک انصاف کو ایک شدید سیاسی دھچکا لگے گا۔
علی امین گنڈاپور کو وزارتِ اعلیٰ سے ہٹانے اور مراد سعید کے شاگرد سمجھے جانے والے سہیل آفریدی کو نیا وزیراعلیٰ نامزد کرنے کا فیصلہ دراصل عمران خان کا وہ سیاسی قدم ہے جس سے ان کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ لڑائی اپنے عروج پر پہنچ گئی ہے۔ گنڈاپور، اپنی جوشیلی تقاریر اور سخت بیانات کے باوجود، عمران خان کے لیے اس وقت ناقابلِ قبول ہو گئے جب وہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اس شدت سے مزاحمت نہ دکھا سکے جسکی عمران کو امید تھی۔ اب خان کی نظریں سہیل آفریدی پر ہیں جو کسر نفسی سے کام لینے والے اپنے سیاسی استاد مراد سعید کی طرح خان کے لیے ہر حد تک جانے کیلئے تیار رہتا ہے۔
سینیئر صحافی انصار عباسی کے مطابق عمران خان کے اس فیصلے کے دو بڑے ممکنہ نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔ پہلا یہ کہ عمران خان فوجی اسٹیبلشمنٹ پر اپنی رہائی کے لیے دباؤ ڈالنے کی خاطر اسلام آباد پر چڑھائی کا ایک نیا منصوبہ تشکیل دے سکتے ہیں۔ لیکن دوسرا اور زیادہ خطرناک نتیجہ خیبر پختونخوا میں دہشتگردی کے مسئلے سے جڑا ہوا ہے۔ عمران خان فوج اور وفاقی حکومت کی دہشتگردی کے خلاف حکمتِ عملی میں رکاوٹیں پیدا کرنے کے لیے سہیل آفریدی کی حکومت کو استعمال کر سکتے ہیں۔
عمران خان کی خواہش ہے کہ نہ تو طالبان دہشتگردوں کے خلاف عسکری کارروائی ہو اور نہ ہی افغانستان سے تعلقات اس بنیاد پر خراب کیے جائیں کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے۔ عمران خان چاہتے تھے کہ گنڈاپور ایکطرف فوج کو طالبان مخالف آپریشن روکنے پر مجبور کریں، اور دوسری طرف صوبائی حکومت کے ذریعے افغانستان سے براہِ راست بات چیت کی راہ نکالیں۔ جب گنڈاپور اس سمت میں وہ پیش رفت نہ کر سکے جسکی عمران کونخواہش تھی، تو انہیں ہٹانے کر سہیل آفریدی کو نیا وزیر اعلی بنانے کا فیصلہ سامنے آیا۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ عمران کا بھارت نواز طالبان کے ساتھ کھڑے ہونے کا پلان صرف اور صرف ریاست پاکستان کو بلیک میل کرنے کی کوشش ہے جسے کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا اور ان کے معاملات بہتر ہونے کی بجائے مزید ابتری کی جانب چلے جائیں گے۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اگر عمران طالبان نواز سہیل آفریدی کو وزیراعلی بنوانے میں کامیاب ہو بھی جاتے ہیں تو بھی صوبے میں گورنر راج کے نفاذ کا امکان رد نہیں کیا جا سکتا۔ انکا کہنا ہے کہ ایسے وقت میں جب پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی کشیدگی عروج ہر ہے اور دہشت گردی دوبارہ سر اٹھا رہی ہے، خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ کی تبدیلی مزید بحران پیدا کرنے جا رہی ہے۔
کیا PTI سہیل آفریدی کو وزیر اعلی بنوانے میں کامیاب ہوگی ؟
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر وزیر اعلی بن کر سہیل آفریدی واقعی عمران خان کی پالیسی کے مطابق چلتے ہیں، تو عمران خان اور فوج کے درمیان تصادم اس حد تک جا سکتا ہے جہاں سے واپسی شاید ممکن نہ رہے۔ پہلا مرحلہ تو یہی ہوگا کہ سہیل آفریدی کے وزیراعلیٰ بننے کی راہ میں آئینی و قانونی رکاوٹیں کھڑی کی جائیں گی۔ ممکن ہے کہ یہ معاملہ عدالتوں تک جا پہنچے۔ لیکن اگر تحریک انصاف ان رکاوٹوں کو عبور کر لیتی ہے، تو یہ واضح اعلان ہوگا کہ عمران اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ایک کھلی لڑائی کے پوزیشن میں ہیں۔ سوال یہ نہیں کہ عمران کی یہ جنگ اصولی ہے یا سیاسی۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس کا نتیجہ پاکستان کے مفاد میں ہوگا؟ کیا عمران کا یہ ’انقلاب‘ جس کا خواب 9 مئی کو بھی دیکھا گیا تھا، پاکستان میں استحکام لائے گا یا افراتفری، جلاؤ گھیراؤ اور اداروں کے تصادم کو جنم دے گا؟
