کیا فوج گنڈاپور کا چیلنج قبول کرتے ہوئے جوابی وار کرنے والی ہے؟

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کی جانب سے مخصوص نشستوں کے کیس کا حتمی فیصلہ آنے کے بعد وزیراعلی خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کی حکومت گرانے کی افواہوں میں تیزی کیا آئی، گنڈاپور نے کلہاڑی اٹھا کر اپنے پاؤں پر مار لی اور یہ اعلان کر دیا کہ وہ کسی ادارے اور کسی جرنیل سے نہیں ڈرتے، موصوف نے اسٹیبلشمنٹ کو للکارتے ہوئے یہ چیلنج بھی دے ڈالا کہ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ وہ ان کی حکومت گرا سکتا ہے تو وہ اپنا شوق پورا کر لے۔
ایسے میں تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ملک کے اصل فیصلہ ساز یقینا اس چیلنج کو قبول کریں گے اور جلد گنڈاپور سرکار سے چھٹکارا حاصل کر لیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ علی امین گنڈاپور ماضی میں بھی اسٹیبلشمنٹ کو چیلنج کرتے رہے ہیں لیکن اس مرتبہ انہوں نے زبان درازی کی تمام حدیں پار کرتے ہوئے ریڈ لائن کراس کر لی ہے لہذا اب ان کا بچنا ممکن نظر نہیں آتا۔ وزیر اعظم نواز شریف کی گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی سے حالیہ ملاقات کے بعد گنڈاپور حکومت گرانے یا نہ گرانے کی بحث سیاسی حلقوں میں زور و شور سے جاری ہے، ایک جانب اہم حکومتی شخصیات کی ملاقاتیں جاری ہیں جبکہ دوسری طرف وزیر اعلیٰ گنڈاپور نے اس حوالے سے فوجی اسٹیبلشمنٹ کو کھلا چیلنج بھی دے دیا ہے۔
خیبرپختونخوا حکومت کے ممکنہ تختہ الٹنے کی خبروں کے دوران وزیراعظم شہباز شریف نے گورنر کے پی فیصل کریم کنڈی اور عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ ایمل ولی خان سے ملاقاتیں کی ہیں۔ فیصل کریم کنڈی نے ملاقات کے بعد بتایا کہ اگر اپوزیشن کے پاس اکثریت ہو تو حکومت کی تبدیلی آئینی حق ہے، اسے سازش کہنا درست نہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ وزیر اعظم سے مخصوص نشستوں کی بحالی کے بعد کی نئی صورت حال پر بات ہوئی۔ انکا کہنا تھا کہ گنڈاپور سرکار کے خلاف سازش کرنے کے لیے ان کے اپنے لوگ ہی کافی ہیں۔
دوسری جانب وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کا جارحانہ ردعمل سامنے آیا ہے۔ انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ چاہے جتنا زور لگا لیا جائے، آئینی طریقے سے ان کی حکومت کو نہیں گرایا جا سکتا۔ تحریک انصاف کی مرکزی قیادت کے ساتھ ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے خفیہ ایجنسیوں اور سیکیورٹی فورسز کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ اگر وہ ان کی حکومت گرانے میں کامیاب ہو گئے تو وہ سیاست چھوڑ دیں گے۔دوسری طرف گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی نے کہا ہے کہ جس دن اپوزیشن کے پاس کے پی اسمبلی میں ایک بھی رکن زیادہ ہو جائے گا، گنڈاپور حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کر دی جائے گی۔ ایک ٹی وی انٹرویو میں گورنر نے کہا کہ ہم نے تو ابھی تک کوئی سازش کی ہی نہیں، انکا کہنا تھا کہ گنڈاپور گھبرا کر دھمکیاں دے رہے ہیں، اور یہ کام ہمیشہ کمزور اور خوفزدہ شخص کرتا ہے۔
دو تہائی اکثریت سے پارلیمنٹ کی مدت 10 سال کرنے کا منصوبہ تیار
ایک سوال کے جواب میں فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ مخصوص نشستوں کی نئی تقسیم کے بعد اپوزیشن کے اسمبلی اراکین کی تعداد 54 ہو گئی ہے اور یہ اچھی تعداد ہے، تاہم ابھی ہم نے گنڈاپور کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کا حتمی فیصلہ نہیں کیا اور اپنا نمبر بڑھانے کی کوشش کررہے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ ہم صحیح وقت آنے پر فیصلہ کریں گے کہ کیا کرنا ہے۔ گنڈاپور کی جانب سے فوجی اسٹیبلشمنٹ کو دی جانے والی دھمکیوں کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ ہم عمران خان کے خلاف وفاق میں عدم اعتماد کی تحریک آنے سے پہلے بھی ایسے ہی ڈائیلاگ سُن رہے تھے، لیکن جب وقت آیا تو عمران خان کو گھر جانا پڑا۔
دوسری جانب وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کے خلاف فوری طور پر کوئی تحریک عدم اعتماد نہیں لائی جا رہی۔ انکا کہنا تھا کہ اس حوالے سے حکومت نے جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان سے بھی کوئی بات نہیں کی۔ ایک ٹی وی کے پروگرام میں رانا ثنا اللہ نے کہا کہ حکومت نے کئی بار پی ٹی آئی کو مذاکرات کی پیشکش کی، لیکن انہوں نے مسلسل انکار کیا۔ پی ٹی آئی کی سیاست ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کے سہارے رہی، وہ اقتدار میں واپس آنے کے لیے ایک بار پھر یہی سہارا چاہتی ہے، مگر اب یہ خواب کبھی پورا نہیں ہو گا۔
ایک سوال پر رانا ثنا اللہ نے کہا کہ خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومت اور عمران کی سیاسی امانت کو علی امین گنڈاپور بخوبی سنبھالے ہوئے ہیں۔ لیکن اگر انہوں نے اپنی اوقات سے باہر ہونے کی کوشش کی تو انہیں ان کی اوقات یاد دلانے میں وقت نہیں لگے گا۔