کیا لاس اینجلس میں بڑے پیمانے پر لگنے والی آگ اللّٰہ کا عذاب ہے؟

امریکی حکام تو ابھی تک یہ سراغ لگانے میں ناکام رہے ہیں کہ لاس اینجلس میں آگ کیوں لگی لیکن پاکستان میں اہل ایمان معاملے کی تہہ تک پہنچ چکے ہیں اور انہیں یقین ہے کہ یہ آگ دراصل اللہ کا عذاب ہے۔ انکے مطابق اس تباہی و بربادی کے ذریعے اللہ تعالٰی نے امریکیوں کو سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ تم ہرگز بھی سپر پاور نہیں ہو اور میں جب چاہوں تمہیں نیست و نابود کر سکتا ہوں۔
معروف لکھاری اور تجزیہ کار بلال غوری اپنی تازہ تحریر میں ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ امریکی ریاست کیلی فورنیا کا خوبصورت شہر لاس اینجلس خوابوں کا دیس کہلاتا ہے، یہ رنگ و نور کا شہر ہے امریکی فلم انڈسٹری کا مرکز ہونے کے علاوہ اس کی متنوع ثقافت کا ایک قابل ذکر پہلو یہ ہے کہ یہاں 140 ممالک سے تعلق رکھنے والے لوگ آباد ہیں جو 200 سے زائد زبانیں بولتے ہیں، مگر انسانیت نے انہیں جوڑ رکھا ہے۔ یہ کوئی قدیم شہر نہیں ہے۔ 1781 میں میکسیکو کے 44 آباد کاروں نے لاس اینجلس کی بنیاد رکھی جو ً1847 میں امریکہ کا حصہ بن گیا۔ گزشتہ ہفتے لاس اینجلس کے ایک علاقے میں آگ بھڑک اُٹھی جس نے دیکھتے ہی دیکھتے ایک بڑے رقبے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
بلال غوری بتاتے ہیں کہ بھرپور کوشش کے باوجود 7 روز گزر چکے اس لیکن آتشزدگی پر قابو نہیں پایا جاسکا۔ اس آگ سے ہونیوالے نقصانات کا تخمینہ اس قدر زیادہ ہے کہ اسے امریکی تاریخ کی بدترین تباہی و بربادی قرار دیا جا رہا ہے۔ امریکی حکام کے مطابق یہاں جل کر بھسم ہوجانے والی آبادیوں کو دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے کسی نے ایٹم بم گرا دیا ہو۔ لگ بھگ 25 ہزار دفاتر، گھر اور گاڑیاں نیست و نابود ہو چکی ہیں۔ ایک لاکھ 53 ہزار افراد کو یہاں سے بیدخل کردیا گیا ہے اور مزید ایک لاکھ 60 ہزار مکینوں کو متنبہ کیا گیا ہے کہ کسی بھی وقت یہاں سے انخلا کیلئے تیار رہیں۔ اس آگ سے ہونیوالے نقصانات کا تخمینہ 150بلین ڈالرز لگایا گیا ہے۔ لاس اینجلس میں آگ کیوں لگی؟ ابھی اس حوالے سے کچھ معلوم نہیں ہوسکا البتہ آگ بڑے پیمانے پر پھیل جانے کے باعث تباہی کا سبب کیوں بنی، اس کا جواب ہے موسمیاتی تبدیلیاں۔
بلال بتاتے ہیں کہ کیلیفورنیا میں 2022-23ء کے دوران خوب بارشیں ہوئیں جنکی وجہ سے جھاڑیوںاور گھاس پھونس نے خوب پرورش پائی۔ اس کے بعد اب تک خشک سالی کاسامنا کرنا پڑ رہا تھا لیازا یہ خودرو جھاڑیاں سوکھ کر ایندھن کی شکل اختیار کر گئیں۔ لاس اینجلس میں چونکہ بہت تیز ہوائیں چلتی ہیں اسلئے جب کسی وجہ سے آگ لگے تو وہ پھیل جاتی یے۔ امریکی حکام تو ابھی تک یہ سراغ لگانے میں ناکام ہیں کہ لاس اینجلس میں آگ کیوں لگی لیکن پاکستان میں اہل ایمان معاملے کی تہہ تک پہنچ چکے ہیں اور انہیں یقین ہے کہ یہ آگ دراصل اللہ کا عذاب ہے۔ انکا کہنا یے کہ اس تباہی و بربادی کے ذریعے پروردگار نے امریکیوں کو سزا دی یے۔ وہ یہ جواز بھی پیش کر رہے ہیں کہ امریکہ کی مدد سے اسرائیل نے فلسطینیوں پر مظالم ڈھائے، اور غزہ کو بمباری سے کھنڈرات میں تبدیل کردیا ، لہازا لاس اینجلس کی تباہی و بربادی دراصل مکافات عمل ہے۔
بلال غوری کہتے ہیں کہ صالحین کا اصرار ہے کہ یہ آگ اللہ کا عذاب بن کر مسلط ہوئی ہے لازا مجھ گناہ گار کی کیا مجال کہ اس دعوے پر شکوک کا اظہار کروں، مگر سوال یہ ہے کہ اللہ تعالی کا یہ عذاب براہ راست اسرائیل پر نازل کیوں نہیں ہوا؟ اگر فلسطینیوں پر ڈھائے گئے مظالم کا حساب کتاب مقصود تھا تو یہ تباہی و بربادی تل ابیب کے حصے میں آتی۔ ممکن ہے اسرائیل کی پشت پناہی کی وجہ سے امریکہ کو سزا دی گئی ہو مگر لاس اینجلس میں عام امریکی شہریوں کے گھر جلانے سے کیا ہوگا؟ ہم نماز پڑھنے کے بعد صبح شام دعائیں کرتے ہیں کہ یا اللہ امریکہ کی توپوں میں کیڑے پڑ جائیں، کفار تباہ و برباد ہوجائیں، اور امریکہ نیست و نابود ہوجائے۔ اگر یہ دعائیں قبول ہوتیں تو لاس اینجلس میں آگ بھڑکنے کے بجائے پینٹاگان میں دھماکہ ہوتا، اگر آگ امریکی اسلحہ کے ذخیرے کو لگتی تو سپر پاور کا غرور خاک میں ملتا اور کفار کو پتہ چلتا کہ عذاب کیا ہوتا ہے۔ ویسے بھی اس بڑے پیمانے پر تباہی و بربادی کے باوجود ابھی تک صرف 16 ہی اموات ہوئی ہیں جبکہ صرف کراچی بلدیہ فیکٹری میں آگ لگنے سے 258 لوگ زندہ جل مرے تھے۔ ایسے میں سوچیے کہ اگر لاس اینجلس میں لگنے والی آگ پاکستان میں لگ جاتی تو کتنی بڑی تعداد میں لوگ مرتے۔