کیا پیپلز پارٹی نون لیگ کیساتھ حکومت کا حصہ بننے کو تیار ہے؟

ایک مرتبہ سے پھر پیپلزپارٹی کی وفاقی اور پنجاب حکومت میں شمولیت کی خبریں زوروں پر ہیں اور میڈیا رپورٹس میں دعوی کیا جا رہا ہے کہ دونوں جماعتوں کے مابین وزارتوں کی تقسیم اور پاور شئیرنگ فارمولے پر مذاکرات جاری ہیں۔ میڈیا میں یہ دعوی بھی کیا جا رہا ہے کہ پیپلز پارٹی جولائی کے آخر تک مرکزی حکومت میں شامل ہو جائے گی۔
تاہم پیپلز پارٹی کے رہنما شرجیل میمن نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دعوی کیا ہے کہ پیپلز پارٹی کو نون لیگ حکومت کی جانب سے وفاقی کابینہ میں شمولیت کی کوئی تازہ دعوت نہیں دی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ جب پیپلز پارٹی کو وفاقی کابینہ میں شمولیت کی باقاعدہ دعوت دی جائے گی تب پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی مشاورت سے فیصلہ کرے گی۔ یاد رہے کہ ماضی میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے اصف زرداری کی مشاورت سے وفاقی کابینہ میں شامل نہ ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔ تب یہ طے کیا گیا تھا کہ پیپلز پارٹی صرف آئینی عہدے لے گی اور حکومتی وزارتیں قبول نہیں کرے گی۔
مبصرین کے مطابق پیپلز پارٹی کی وفاقی کابینہ میں شمولیت بارے افواہوں کا تازہ سلسلہ تب شروع ہوا جب بلاول بھٹو نے پاک بھارت جنگ کے بعد ایک پاکستانی وفد کی قیادت کرتے ہوئے مختلف ممالک کا دورہ کیا۔ اس وفد میں حکومتی وزرا بھی موجود تھے۔ بلاول بھٹو کی زیر قیادت کامیاب دورے کے بعد شہباز شریف نے پیپلز پارٹی کے چیئرمین کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے انہیں خراج تحسین پیش کیا تھا۔ حالانکہ بلاول کا یہ موقف ہے کہ حکومت کرنے کا مینڈیٹ نون لیگ کو ملا تھا اس لیے پیپلز پارٹی کو کابینہ میں شامل نہیں ہونا چاہیے لیکن پیپلز پارٹی کے اندر یہ سوچ بھی پائی جاتی ہے کہ اگلے چار برس وفاقی حکومت سے باہر رہ کر پیپلز پارٹی سراسر نقصان اٹھائے گی لہذا اسے کابینہ کا حصہ بن جانا چاہیے، یہ توجیہہ بھی پیش کی جا رہی ہے حکومت کی ناکامی کے خدشات اب دم توڑ چکے ہیں اور حکومت اور فوجی قیادت کے تشکیل کردہ مشترکہ ہائبرڈ سسٹم نے ملکی معیشت اور سیاسی نظام کو سنبھال لیا ہے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق فوجی قیادت کی بھی خواہش ہے کہ حکومت کو مزید مضبوط کرنے کے لیے پیپلز پارٹی بھی اس کا حصہ بن جائے۔ تاہم پیپلز پارٹی کا یہ موقف ہے کہ تمام اہم وزارتیں نون لیگ اپنے لوگوں کو سونپ چکی ہے، اس وقت وزیر خارجہ اور ڈیپٹی وزیر اعظم کے اہم ترین عہدے نواز شریف کے قریبی ساتھی اور ان کے سمدھی اسحاق ڈار کے پاس ہیں۔ اگر بلاول کابینہ کا حصہ بنیں گے تو ان دو عہدوں سے کم پر بات نہیں بنیں گی، دوسری طرف شہباز شریف کے لیے مشکل ہوگا کہ وہ نواز شریف کے سمدھی سے یہ اہم ترین عہدے واپس لے کر بلاول کو دے پائیں۔ چنانچہ مستقبل قریب میں بلاول بھٹو وفاقی کابینہ کا حصہ بننے پر آمادہ نہیں ہوں گے۔
تاہم دوسری جانب میڈیا رپورٹس کے مطابق دونوں جماعتوں کے درمیان وزارتوں کی تقسیم کا معاملہ جلد طے ہو جائے گا، جسکے بعد جولائی میں پیپلزپارٹی باقاعدہ وفاقی اور پنجاب حکومت کا حصہ بن جائے گی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پہلے مرحلے میں پیپلز پارٹی وفاقی حکومت کا حصہ بنے گی جبکہ دوسرے مرحلے پر پیپلزپارٹی کو پنجاب حکومت میں بھی شامل کر لیا جائے گا۔ اس اس حوالے سے دونوں جماعتوں کے درمیان بیک ڈور بات چیت شروع ہوگئی ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ذرائع کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کی ن لیگ سے وفاق اور پنجاب حکومت میں شمولیت کے حوالے سے 20 روز سے مذاکرات جاری ہیں۔ عسکری حلقوں کے علاوہ نون لیگ بھی چاہتی ہے کہ کسی بھی صورت پیپلز پارٹی حکومت میں شامل ہوجائے، تاکہ سخت حکومت فیصلوں کا بوجھ دونوں پارٹیاں مل کر اٹھائیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پی پی پی کابینہ میں شمولیت کا فیصلہ تب ہی کرے گی جب اس کی شرطیں قبول کر لی جائیں گی اور اسے پنجاب کی کابینہ میں بھی باعزت حصہ دیا جائے گا۔ لہذا پیپلز پارٹی کی وفاقی کابینہ میں شمولیت کا دارومدار پارٹی کی شرائط کی روشنی میں ن لیگ کی جانب سے کی جانے والی پیشکش پر ہو گا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی رابطہ کمیٹیوں کے اجلاسوں میں وفاق اور پنجاب میں پاورشیئرنگ کے معاملات طے کرنے کیلئے ایک سب کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو لہ پنجاب کی مختلف صوبائی اتھارٹیز میں نامزدگیوں، ترقیاتی فنڈز کے اجراء اور بیوروکریسی میں من پسند تبادلوں بارے پیپلز پارٹی کے تحفظات کے ازالے کیلئے کام کرے گی۔ اس کمیٹی کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ دونوں جماعتوں میں اختلافات کی خلیج کو کم کیا جا سکے۔ تاہم لیگی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کو فوری کابینہ میں شامل ہو جانا چاہیے تاکہ ان کی تمام محرومیوں کو کم کیا جا سکے۔ سپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان کا کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کا اتحاد ملک کو مسائل اور مشکلات سے نکالنے کیلئے ہے، ہماری ترجیح ملک کو آگے لے کر جانا ہے تاکہ عوام مطمئن ہو سکیں، تاہم اصل صورتحال اگلے چند ہفتوں میں مزید کلئیر ہونے کا امکان ہے۔