کیا تحریک طالبان کی پاکستان کو مذاکرات کی آفر سنجیدہ ہے ؟

حکومت کی جانب سے افغان طالبان کو ٹی ٹی پی کے معاملے پر سخت وارننگ دینے کے بعد تحریکِ طالبان نے گھٹنے ٹیکتے ہوئے پاکستان کو مذاکرات کی پیشکش کر دی ہے۔ مبصرین کے مطابق پاکستان کے سخت اور دوٹوک مؤقف اختیار کرنے کے بعد کالعدم دہشتگرد ٹولے ٹی ٹی پی کی جانب مذاکرات کی پیشکش بظاہر ایک مثبت اشارہ دکھائی دیتا ہے، مگر اصل سوال یہ ہے کہ کیا قیام امن کے حوالے سے طالبان کی جانب سے یہ کوئی سنجیدہ کوشش ہے یا محض وقتی دباؤ کم کرنے کی حکمتِ عملی؟
دفاعی تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالیہ کشیدگی کے پس منظر میں کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان کی مذاکراتی پیشکش اور بدلتا مؤقف محض اتفاق نہیں۔ ماضی کے تجربات یہ بتاتے ہیں کہ جب بھی دہشتگرد تنظیموں پر ریاستی دباؤ بڑھتا ہےتو شدت پسند گروہ عارضی طور پر مذاکرات کا ڈھول پیٹنا شروع کر دیتا ہے، مگر جیسے ہی سیکیورٹی فورسز کی جانب سے دباؤ کم ہوتا ہے وہ دوبارہ حملوں کی راہ اختیار کرلیتے ہیں۔ اس پس منظر میں ٹی ٹی پی کی مذاکرات کی حالیہ پیشکش کو بھی "گھٹنے ٹیکنے” سے زیادہ "وقت حاصل کرنے” کی کوشش سمجھا جا سکتا ہے۔
مبصرین کے بقول افغان طالبان کے لیے پاکستانی حکام اور ٹی ٹی پی کا معاملہ سب سے زیادہ مشکل ہے۔ ایک طرف وہ دنیا کو یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ وہ علاقائی امن کے ضامن ہیں، دوسری طرف ٹی ٹی پی کو مکمل طور پر قابو میں لانے یا نکالنے سے گریزاں ہیں۔ کابل کی یہ "دوہری حکمت عملی” پاکستان کے لیے مستقل خطرہ بن چکی ہے۔ ناقدین کے مطابق اگر افغان طالبان واقعی دہشت گردوں سے لاتعلقی چاہتے ہیں تو وہ انہیں اپنی سرزمین پر کیوں برداشت کر رہے ہیں؟ سیاسی تجزیہ کاروں کے بقول پاکستان نے ٹی ٹی پی کی معاونت کے حوالے سے افغان حکام کو سفارتی سطح پروارننگ ضرور دی ہے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا محض احتجاجی بیانات یا سفارت کاروں کی طلبی سے دہشتگردی پر قابو پانا ممکن ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ماضی میں بھی ایسی سفارتی کوششوں کے بعد عملی پیش رفت صفر رہی ہے اور ٹی ٹی پی پہلے سے کمزور ہونے کی بجائے مزید طاقتور ہو کر میدان میں آئی ہے ماہرین کے مطابق ٹی ٹی پی پر قابو پانے کے حوالے سے پاکستانی سیاسی قیادت بھی تقسیم کا شکار ہے۔ نون لیگ اور پیپلز پارٹی سمیت سمیت کچھ سیاسی قوتیں دہشتگردی کی کمر توڑنے کیلئے فوجی آپریشن پر زور دیتی ہیں جبکہ پی ٹی آئی اور اس کی حواری جماعتیں مذاکرات کو ہی دہشتگردی پر قابو پانے کا واحد حل گردانتی ہیں۔ سیاسی قیادت کے اس تضاد کی وجہ سے وفاقی اور صوبائی حکومت یکسوئی کے ساتھ دہشتگردی بارے جامع حکمت عملی اختیار کرنے میں یکسر ناکام دکھائی دیتی ہے جبکہ ٹی ٹی پی جیسی دہشتگرد جماعتیں اس تضاد کا براہِ راست فائدہ اٹھاتی نظر آتی ہیں۔
سیکیورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کو دہشتگرد ٹولے کو پٹی ڈالنے کیلئے ایک مربوط حکمت عملی کے تحت آگے بڑھنا ہو گا کیونکہ طالبان کی دہشتگردی کا مسئلہ صرف پاکستان یا افغانستان تک محدود نہیں۔ اگر پاکستان اور افغان طالبان کے تعلقات مزید خراب ہوئے تو خطے میں نئی پراکسی وار کی راہ کھل سکتی ہے، جس میں بھارت یا دیگر علاقائی طاقتیں اپنی مداخلت بڑھا سکتی ہیں۔ یوں یہ تنازع محض ایک سرحدی مسئلہ نہیں بلکہ پورے خطے کے استحکام کے لیے دھماکہ خیز خطرہ ثابت ہو سکتا ہے۔ مبصرین کے مطابق ٹی ٹی پی کی حالیہ مذاکراتی پیشکش کو خوش آئند پیش رفت سمجھنے کے بجائے اسے کڑی تنقید اور حقیقت پسندی کے ساتھ دیکھنا چاہیے کیونکہ جب تک مذاکرات شفاف اور بین الاقوامی نگرانی میں نہ ہوں، افغان طالبان اپنی ذمہ داری سے انکار کے بجائے عملی اقدام نہ کریں اور پاکستان داخلی سطح پر متفقہ قومی پالیسی نہ بنائے، اس وقت تک کسی بھی "امن مذاکرات” کو پائیدار حل کہنا خودفریبی کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔
افغانستان میں TTP کے خلاف پاکستانی فوجی کارروائی کا امکان
سیکیورٹی ماہرین کے مطابق وزیر اعظم شہباز شریف کی سخت وارننگ کے بعد ٹی ٹی پی کی مذاکرات کی پیشکش کوئی نئی بات نہیں ہے کیونکہ تحریک طالبان پاکستان 2022 کے ناکام امن معاہدے کے بعد کئی بار مذاکرات کی پیشکش کر چکی ہے۔ ٹی ٹی پی کی حالیہ پیشکش دراصل فوجی آپریشن کے بڑھتے ہوئے امکانات کے ردعمل میں ہے تاکہ تاثر دیا جا سکے کہ طالبان بات چیت کے حامی ہیں جبکہ حکومت طاقت استعمال کر رہی ہے۔‘دوسری جانب طالبان کی مذاکراتی پیشکش پاکستانی حکومت کے اس دعوے کا بھی جواب ہے کہ ٹی ٹی پی قیادت افغانستان میں ہے کیونکہ ٹی ٹی پی نے پیشکش کی ہے کہ ان کی قیادت پاکستان میں مذاکرات کے لیے تیار ہے۔ جس سے انھوں نے یہ باور کروانے کی کوشش کی ہے کہ ٹی ٹی پی کی قیادت پاکستان میں موجود ہے اور وہ سیکیورٹی و حکومتی ذمہ داران سے مذاکرات پر بھی آمادہ ہے۔تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان میں ہونے والے دہشتگردانہ کارروائیوں کی وجہ سے پاکستان کی جانب سے افغان طالبان پر دباؤ بڑھتا جا رہا جس کا لا محالہ اثر ٹی ٹی پر بھی آرہا ہے۔ اسی دباؤ کو کم کرنے کے لیے ٹی ٹی پی نے مذاکرات کی پیشکش کی ہے تاہم حقیقت یہ ہے کہ اس وقت مذاکرات کے لیے ماحول سازگار نہیں ہے اور پاکستان کبھی بھی طالبان کے ساتھ ایک میز پر نہیں بیٹھے گا کیونکہ ماضی میں بھی ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کے مختلف ادوار ہوئے ہیں لیکن ناکام رہے ہیں۔ ان مذاکراتی ادوار میں افغان طالبان اور ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کے ساتھ کابل میں ملاقاتیں بھی ہوئی تھیں لیکن وہ ناکام رہے تھے جبکہ اس مذاکراتی عمل کے بعد پاکستان میں عسکریت پسندی کی ایک نئی لہر نے جنم لیا تھا۔
