خیبر پختونخوا — تبدیلی یا سیاسی تجربہ گاہ؟

تحریر: حسن نقوی

عمران خان نے ہمیشہ یہ دعویٰ کیا کہ وہ پاکستان کو موروثی سیاست سے آزاد کرائیں گے، کہ ان کی جماعت میرٹ اور شفافیت کی بنیاد پر فیصلے کرے گی۔ لیکن آج خیبر پختونخوا کی حالت دیکھ لیجیے۔ علی امین گنڈا پور کو فارغ کر کے محمد سہیل آفریدی کو وزیراعلیٰ بنا دیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ کیوں؟ کیا یہ عوامی مطالبہ تھا؟ کیا یہ کارکردگی کی بنیاد پر تھا؟ یا پھر ایک بار پھر وہی زمان پارک کی سرگوشیاں، خاندانی دباؤ اور بند کمروں کے فیصلے؟

اصل دکھ یہ ہے کہ سہیل آفریدی ایک ناتجربہ کار سیاست دان ہیں۔ ابھی کل تک وہ محض ایک ایم پی اے تھے، کبھی معاونِ خصوصی تو کبھی ایک مختصر وزارت کے مالک۔ آج جب خیبر پختونخوا دہشتگردی کے دباؤ میں ہے، جب پولیس اور لیویز کا مورال پست ہے، جب وفاق اور صوبے کے تعلقات کشیدہ ہیں—تو کیا ایسے نازک وقت میں صوبے کو ایک ایسے شخص کے حوالے کیا جا سکتا ہے جس کے پاس نہ تجربہ ہے نہ وژن؟ کیا کروڑوں عوام کا مستقبل کسی کے ذاتی تعلق اور پارٹی کے اندرونی حلقے کی قربت پر لٹکایا جا سکتا ہے؟

لیکن صرف نا تجربہ کاری مسئلہ نہیں۔ سہیل آفریدی کی سب سے بڑی پہچان اُن کی طالبان نواز ذہنیت ہے۔ یہ محض الزام نہیں، یہ حقیقت ہے جو سیاسی اور سلامتی کے حلقوں میں کھلے عام تسلیم کی جاتی ہے۔ کیا خیبر پختونخوا کے عوام، جنہوں نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں ہزاروں جنازے اٹھائے، یہ برداشت کر سکتے ہیں کہ اُن کا وزیراعلیٰ طالبان نواز ذہنیت رکھتا ہو؟ کیا یہ ان شہیدوں کے خون کی توہین نہیں ہے جنہوں نے اس سرزمین پر امن کے لیے جان دی؟

پھر سوال یہ بھی ہے کہ پی ٹی آئی کا میرٹ کہاں گیا؟ وہی پی ٹی آئی جو شریفوں اور بھٹوؤں کو خاندانی سیاست پر کوستی تھی، آج خود کیوں بزدار کو بشریٰ بی بی کی منظوری پر پنجاب پر مسلط کرتی ہے اور سہیل آفریدی کو اندرونی دباؤ پر خیبر پختونخوا پر؟ یہ کھلا تضاد نہیں تو اور کیا ہے؟ یہ منافقت نہیں تو پھر کیا ہے؟

یہ صرف ایک شخص کی تقرری کا معاملہ نہیں۔ یہ ایک پیغام ہے۔ پیغام یہ کہ کارکن بے وقعت ہیں، عوام کی رائے بے معنی ہے، ادارے غیر اہم ہیں۔ اصل اختیار اُس کے پاس ہے جو زمان پارک میں بیٹھ کر کان میں بات ڈال دے۔ خیبر پختونخوا جیسے حساس صوبے کو ایک سیاسی تجربہ گاہ بنا دینا، جہاں نااہل اور متنازعہ لوگ آزمائے جائیں، قوم کے ساتھ سنگین مذاق ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ محمد سہیل آفریدی جیسے ناتجربہ کار اور طالبان نواز ذہنیت رکھنے والے شخص کو وزیراعلیٰ بنا کر تحریکِ انصاف نے نہ صرف اپنے ہی نعروں کو دفن کیا بلکہ پاکستان کے استحکام کو بھی خطرے میں ڈال دیا۔ خیبر پختونخوا کو طاقت، وژن اور قیادت چاہیے تھی۔ مگر جو کچھ دیا گیا ہے وہ کمزوری، جھکاؤ اور انتشار ہے۔

اب سوال سیدھا ہے: کیا یہ واقعی تبدیلی ہے یا پھر وہی پرانی سیاست جس میں چہرے بدل جاتے ہیں مگر کھیل وہی رہتا ہے؟ اور خیبر پختونخوا کے عوام کو پورا حق ہے کہ وہ پوچھیں—اُن کے خون، اُن کے امن اور اُن کے مستقبل کو آخر کب تک زمان پارک کی سرگوشیوں اور طالبان نواز ذہنیت رکھنے والے حکمرانوں کی نذر کیا جاتا رہے گا؟

Back to top button

Adblock Detected

Please disable the adblocker to support us!