نیب کے وصول کردہ 820 ارب روپے کدھر غائب ہو گئے

قومی احتساب بیورو نے 1999 میں اپنے قیام کے بعد 23  سال کے دوران قومی خزانے میں صرف ساڑھے چھ ارب روپے جمع کرواۓ مگر ادارے کی جانب سے دعویٰ 821 روپے ریکور کرنے کے  کیا جاتا رہا یہاں تک کہ پانچ سو ارب روپے وصول کرنے کا جو بودا اور جھوٹا دعویٰ کیا گیا اس رقم کا کہیں وجود ہی نہیں. دو دھائیوں تک  نیب کی غیر معمولی جھوٹی کارکردگی دکھانے  کے لئے حقائق کو توڑ مروڑ کر اور  اعداد و شمار کو بڑھا چڑھا کر  پیش کیا جاتا رہا تاکہ اسٹیبلشمنٹ کے لئے سیاسی انجنیئرنگ میں معاون  اس ادارے کے وجود کو جواز فراہم کیا جاتا رہے۔

سینئر صحافی انصار عباسی کی ایک رپورٹ کے مطابق نیب نے دعویٰ کیا تھا کہ سابق چئیر مین نیب جاوید اقبال کے دور میں 500؍ ارب روپے ریکور کیے گئے  تاہم چیئرمین کے دعوے کے برعکس اس ریکور کردہ رقم کا کہیں وجود نہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ حال ہی میں مستعفی ہونے والے چیئرمین آفتاب سلطان نے متعلقہ افسران کو ہدایت کی تھی کہ مبہم اور مشکوک ریکوریاں بتانے کی بجائے صرف وہی بتایا جائے جو اصل اعداد و شمار ہیں۔ سلطان نے مبینہ طور پر کہا تھا کہ سالانہ رپورٹ میں بالواسطہ ریکوریاں ظاہر نہ کی جائیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ عالمی ثالثی عدالت کی جانب سے سرمایہ کاری کے تنازع میں کارکے رینٹل پاور کے 1.2؍ ارب ڈالرز کے جرمانے کا معاملہ طے ہونے کے بعد نیب نے اپنی فائلوں میں مئی 2020ء میں 192؍ ارب روپے کی ریکوری دکھائی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عمران خان حکومت نے تین افسران کو انعام سے نوازا تھا جن میں کنسلٹنٹ احمد عرفان اسلم ،سیکٹر کمانڈر آئی ایس آئی بریگیڈیئر رانا عرفان شکیل رامے اور آئی ایس آئی کے ہی کرنل فاروق شہباز  شامل ہیں. نیب دستاویز کے مطابق، کارکے نے حکومتِ پاکستان کیخلاف ثالثی عدالت میں مقدمہ کیا تھا، عدالت نے کارکے کے حق میں فیصلہ سنایا۔ حکومتِ پاکستان پر واجبات 1.2؍ ارب ڈالرز ہوگئیں۔ تاہم، نیب کے انوسٹی گیشن افسر نے آزاد جموں و کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک ملزم کے گھر پر چھاپہ مار کر اس کے غیر ملکی اثاثہ جات کے متعلق تفصیلات حاصل کیں اور یہ کارکے کیخلاف براہِ راست کمیشن کا ثبوت تھا۔نیب نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ نیب کے انوسٹی گیشن افسر کے کام کی وجہ سے ہی کارکے نے حکومتِ پاکستان سے اعلیٰ سطح پر رابطہ کیا اور ثالثی کی درخواست کی۔   نیب نے دعویٰ کیا کہ بات چیت کے کئی مراحل کے بعد معاہدہ طے ہوا جس سے 1.2 ارب ڈالرز کی بچت ہوئی۔

ایک اور کیس میں نیب نے اپنے کھاتے میں 73؍ ارب روپے کی ریکوری ڈال دی۔ دعویٰ کیا گیا کہ سابق چیئرمین اور دیگر کیخلاف نیکسٹ جنریشن موبائل سروس کا ایوارڈ ایک نجی ٹیلی کام کمپنی کو دینے کی تحقیقات کی گئیں اور اس سے 73؍ ارب روپے کی ریکوری ہوئی۔ایک اور کس میں سپریم کورٹ کی جانب سے بحریہ ٹاون  پر عائد کردہ جرمانے کا کیس بھی نیب نے بے شرمی سے اپنے کھاتے میں ڈال دیا۔بیورو کی ریکوری فائل میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ نے ہائوسنگ اسکیم پر نیب کی تحقیقات کی وجہ سے جرمانہ عائد کیا۔ نیب کی مداخلت کے بعد ہی یہ سب ہوا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کیس میں بحریہ ٹاون  کی انتظامیہ میں سے نیب والوں نے کسی کو بھی کبھی طلب نہیں کیا تھا ۔  فائل میں لکھا ہے کہ سپریم کورٹ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے بحریہ ٹاون  نے جون 2020ء تک 52؍ ارب روپے ادا کیے جبکہ 5.4؍ ارب روپے کی رقم بطور مارک اپ حاصل کی گئی۔ یہ سب نیب کی جانب سے ریکور کردہ رقم بتائی گئی ہے۔

ایک اور کیس میں نجی ہائوسنگ اسکیم اور اس کے متاثرین کے درمیان ہونے والا ثالثی معاہدہ عدالت کے ذریعے ہوا تھا لیکن نیب نے اسے بھی اپنی ریکوری کھاتے میں ڈال دیا اور بتایا کہ 16؍ ارب روپے ریکور کیے۔ ایک ذریعے کے مطابق، نیب نے ون ہائیڈ پارک کیس میں 41؍ ارب روپے کی ریکوری کا دعویٰ بھی کیا ہے۔ عمران خان کے دورِ حکومت میں وزارت خزانہ نے انکشاف کیا تھا کہ نیب نے اپنے قیام سے لیکر اب تک قومی خزانے میں صرف ساڑھے 6؍ ارب روپے جمع کرائے ہیں۔

وزارت کا یہ بیان نیب کے 821؍ ار ب روپے کی ریکوری کے دعووں پر زبردست طمانچہ تھا۔ ایڈیشنل سیکریٹری بجٹ کے مطابق، نیب نے صرف ساڑھے 6؍ ارب روپے قومی خزانے میں جمع کرائے اور انہوں نے یہ بات سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ میں کہی تھی۔ ایڈیشنل سیکریٹری بجٹ کے مطابق، ان ساڑھے 6؍ ارب روپے میں سے پی ٹی آئی حکومت کے دور میں صرف 1.4؍ ارب روپے یعنی مجموعی ریکور کر دہ رقم کا 21.5؍ فیصد حصہ ہی جمع کرایا گیا۔

رابطہ کرنے پر نیب کے ایک عہدیدار نے ریکوری کے اعداد و شمار کو درست قرار دیا اور اصرار کیا کہ یہ سب نیب کی کارروائیوں کا نتیجہ ہیں لیکن اس میں بلاواسطہ کی جانے والی ریکوریاں بالواسطہ کی گئی ریکوریوں میں شامل نہیں۔

جنرل فیض نے امریکی جنرل کو کونسا مہنگا تحفہ دیا؟

Related Articles

Back to top button