نواز شریف اور عمران خان کے درمیان ڈائیلاگ کیوں نہیں ہو سکتا؟

سنئیر صحافی اور کالم نگار جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ ہم اس وقت پوری دنیا اور اپنے ساتھ متھا لگا کربیٹھے ہیں، ہم اگر اس متھے بازی میں بھی خوش حال اور مطمئن ہوجاتے تو بھی کوئی مسئله نہیں تھا ، ہم سے تو آج اپنی روٹی پوری نہیں ہو رہی ، پھر ہمیں اس متھے بازی کا کیا فائدہ ہوا ؟میری پوری قوم سے درخواست ہے کہ مکالمہ شروع کریں، سوچنا سمجھنا بھی شروع کریں . عمران خان کے ساتھ بھی بیٹھیں آخر اس کی بات سننے میں کیا حرج ہے؟ میاں نواز شریف اور عمران خان کے درمیان ڈائیلاگ کیوں نہیں ہو سکتا؟ اگر اٹھارویں ترمیم میں کوئی خرابی ہے تو اسے ٹھیک کیوں نہیں کیا جا سکتا اور آرمی چیف اور چیف جسٹس ایک دوسرے کے ساتھ کیوں نہیں بیٹھ سکتے؟ اپنے کالم میں جاوید چودھری لکھتے ہیں کہ ہم کیوں نفرت کے بیوپاری بن کر رہ گئے ہیں؟ ملک کو دنیا کے لیے کھولیں، بھارت سے ڈائیلاگ شروع کریں، اسرائیل سے بھی مذاکرات کریں، ایران، چین روس اور امریکا سے نئے سرے سے بات چیت کریں۔

افغانستان سے بھی کھلے دل کے ساتھ گفتگو شروع کریں، شیعہ سنی ڈائیلاگ بھی کریں، پاکستان کے ناراض گروپ وہ خواہ بلوچ علیحدگی پسند ہوں یا تحریک طالبان پاکستان ہوں آپ ان کے ساتھ بیٹھیں، یہ اگر کسی حل کی طرف آتے ہیں تو سو بسم اللہ اور اگر نہیں مانتے تو ایک ہی بار مکمل آپریشن کریں منظور پشتین گروپ کے ساتھ بھی ڈائیلاگ شروع کریں . ہمیں ماننا ہوگا دنیا بدل چکی ہے، دنیا میں اب جنگیں حل نہیں رہیں، امن، مذاکرات، ایک دوسرے کو انڈر اسٹینڈ کرنا اور مل کرساتھ چلنے سے مسئلے حل ہو رہے ہیں، آپ یورپ کی مثال لے لیجیے، دنیا میں دو عالمی جنگیں ہوئیں اور یہ دونوں یورپ میں شروع ہوئی تھیں اوران میں دس کروڑ لوگ مارے گئے تھے لیکن آج یورپ میں سرحدیں ختم ہو چکی ہیں۔

کرنسی تک ایک ہے اور ایک ملک کے شہری دوسرے اور دوسرے کے تیسرے میں کام کر رہے ہیں اور کسی کو کسی سے کوئی سروکار نہیں، بھارت اور چین کے درمیان بھی 60 سال سے لڑائی چل رہی ہے لیکن دونوں کے تجارتی تعلقات میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، بھارت اور چین کے درمیان جون 2020میں لداخ میں خوف ناک جھڑپ ہوئی تھی۔

اس میں بھارت کے کرنل سمیت 20فوجی ہلاک ہو گئے تھے لیکن اس جھڑپ کے بعد دونوں ملکوں میں تجارتی تعاون دگنا ہوگیا، دونوں کے درمیان اس وقت 135بلین ڈالر کی تجارت ہوتی ہے ہے . جاوید چودھری کہتے ہیں کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان 14 سو سال سے لڑائی اور اختلاف چلا آ رہا ہے کبھی یہ دعویٰ کیا جاتا تھا کہ دنیا ختم ہو سکتی ہے لیکن ایران اور سعودی عرب ایک میز پرنہیں بیٹھ سکتے اور یہ بات کسی حد تک درست بھی تھی کیوں کہ یہ جغرافیائی یا سفارتی مسئلہ نہیں ہے، یہ مذہبی، نسلی اور ثقافتی ایشو بھی ہے، شیعہ اسلام اور سنی اسلام میں بہت فاصلے ہیں۔ ان کااکٹھا چلنا آسان نہیں لیکن پھر10مارچ کو چین میں دونوں ملک نہ صرف ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ گئے بلکہ دونوں نے سفارت خانہ کھولنے اور سفارتی اختلافات ختم کرنے کا اعلان بھی کر دیا اور اب ایرانی صدر سعودی عرب کا دورہ شروع کر رہے ہیں، یہ میجر شفٹ ہے اور پوری دنیا اس پر حیران ہے۔ یہ مسئلہ کسی مسلمان حکمران نے حل نہیں کرایا، یہ بیجنگ میں صدر شی جن پنگ نے حل کرایا اور صدر شی جن پنگ مذہب پر یقین نہیں رکھتے لہٰذا ہم اس تبدیلی کو تبدیلی کہہ سکتے ہیں۔ یوکرین کے ایشو پر روس، یورپ اور امریکا کے درمیان خوف ناک اختلافات ہیں مگر تجارت اور سفارتی تعلقات جاری ہیں، یہ ایک دوسرے کے لیے سرحدیں بند کرکے نہیں بیٹھ گئے اور آپ دیکھ لیجیے گا یہ لوگ مل ملا کر اسی سال یوکرین کا مسئلہ بھی حل کر لیں گے۔ جاوید چودھری سوال کرتے ہیں کہ ہم نے کبھی ٹھنڈے دل و دماغ سے غور کیا آخر اسرائیل اور بھارت کے ساتھ ہمارا مسئلہ کیا ہے؟ اسرائیل کا تنازع اسلام اور یہودیت کا مسئلہ نہیں تھا، خلفاء راشدین سے لے کر خلافت عثمانی تک یہودی ہر دور میں مسلم ریاست کے شہری رہے اور مدینہ منورہ کے ابتدائی دنوں کے علاوہ ہماری کبھی ان سے جنگ نہیں ہوئی۔

یہودیوں کی اصل لڑائی عیسائیوں سے تھی لیکن یہ آج بھائی بھائی ہیں اور ہم لڑ رہے ہیں لیکن رکیے یہ لڑائی بھی اب پاکستانی اسرائیلی بن چکی ہے، فلسطین میں یہودیوں اور عربوں کا ایشو تھا لیکن عرب ان کے ساتھ بیٹھ چکے ہیں، یو اے ای، عمان، ترکی، مصر، اردن اور شام سے اسرائیل کے لیے باقاعدہ فلائیٹس چلتی ہیں، دبئی نے اسرائیلی کمپنیوں کو سرمایہ کاری کی اجازت تک دے دی ہے لیکن پاکستان میں اس ایشو پر بات تک جرم ہے۔ آپ بات کرکے دیکھ لیں آپ کو یہودی ایجنٹ قرار دے دیاجائے گا، ہم یہ تک سوچنے کے لیے تیار نہیں ہیں ہم نے جن لوگوں کی محبت میں اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا وہ ایک دوسرے کے ساتھ سرحدیں کھول کر بیٹھے ہیں جب کہ ہم آج بھی اس ایشو پر بات نہیں کر سکتے، کیوں؟ ہم نے بھارت کے ساتھ لڑ کربھی 75 سال ضایع کر دیے ہیں۔ ہمیں کیا ملا؟ ہم آج ایک بلین ڈالر کے لیے آئی ایم ایف کے سامنے ناک رگڑ رہے ہیں جب کہ بھارت کے ایک بزنس مین گوتم اڈانی کو صرف ایک ہفتے میں 100 بلین ڈالر نقصان ہوا اور انڈیا میں ایسے 276 بزنس مین ہیں، ہمارا پٹرول، گیس، بجلی اورکپاس پوری نہیں ہو رہی جب کہ ایران، ازبکستان، تاجکستان اور قاز قستان گاہکوں کا راستہ دیکھ رہے ہیں، اسرائیل ہم سے پوچھتا ہے بھائی صاحب عرب ہمارے ساتھ بیٹھے ہیں۔آپ کو کیا مسئلہ ہے؟ بھارت بھی بار بار کہہ ر ہا ہے آپ ایشوز لاک کریں اور سرحدیں کھولیں، ایران اور روس ہمیں پٹرول اور گیس دینا چاہتے ہیں، چین گوادر میں انٹرنیشنل شہر آباد کرنا چاہتا ہے۔یورپ ہمارے ہنر مندوں کے لیے ملک کھولنا چاہتا ہے اور امریکا پاکستان میں امن اور خوش حالی دیکھنا چاہتا ہے مگر ہم پوری دنیا اور اپنے ساتھ متھا لگا کربیٹھے ہیں اور ہم اگر اس متھے بازی میں بھی خوش حال اور مطمئن ہوجاتے تو بھی کوئی ایشو نہیں تھا، ہم سے تو آج اپنی روٹی پوری نہیں ہو رہی لہٰذا پھر ہمیں اس متھے بازی کا کیا فائدہ ہوا؟ آخر میں جاوید چوھدری کہتے ہیں کہ ہم اس ملک کو ایڈہاک بنیادوں پر کیوں چلا رہے ہیں، ہماری دوڑ دو چار بلین ڈالر تک کیوں رہتی ہے، ہم اس ملک کو مضبوط بنیادوں پر کھڑا کیوں نہیں کرتے؟ ہم کیوں نفرت کے بیوپاری بن کر رہ گئے ہیں۔ آج اگر سعودی عرب اور ایران اکٹھے بیٹھ گئے ہیں تو ہم کیوں نہیں بیٹھ سکتے؟ یہ یاد رکھیں دنیا میں گفتگو اور ڈائیلاگ کے سوا کوئی راستہ نہیں، یہ راستہ اختیارکریں، ہم کہیں نہ کہیں پہنچ جائیں گے ورنہ یوں ہی دم گھٹ کر مر جائیں گے۔

فوری انتخابات سے سیاسی کشیدگی میں اضافے کا خطرہ

Related Articles

Back to top button