جنرل باجوہ کے صحافتی جنگجو اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کیوں ہوۓ؟

سینئر صحافی اور سیاسی تجزیہ کار عاصمہ شیرازی نے کہا ہے کہ جنرل باجوہ نے حال ہی میں اپنے ایک مبینہ انٹرویو میں اپنے تبدیلی پراجیکٹ میں استعمال شُدہ صحافی نما سیاسی کارکنوں کا ذکر کیا کہ آئی ایس پی آر نے پراجیکٹ تبدیلی کے بیانیے کے لیے چند صحافیوں کا بھی انتخاب کیا تھا البتہ یوٹرن لیتے وقت ان صحافیوں کو مناسب طریقے سے اعتماد میں نہ لیا جا سکا اور یوں یہ کارتوس ہاتھ میں ہی چل گئے۔ اپنے ایک کالم میں عاصمہ شیرازی کہتی ہیں کہ فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی 2018 سے قبل ’تبدیلی پراجیکٹ‘ کی بریفنگز میں ’چوروں، ڈاکوؤں‘ سے نجات اور عوامی حمایت یافتہ عسکری حکومت کے خدوخال اور اس کے اغراض و مقاصد جذباتی انداز میں بیان کیے جاتے۔ عمران خان ایک مسیحا اور نجات دہندہ تصور کیے جاتے، ان صحافتی جنگجوؤں میں سے ایک نے خوب کہا کہ ہمیں ان بریفنگزز میں سیاسی جماعتوں کی بدعنوانی کے ثبوت دکھائے جاتے جن پر وہ من و عن ایمان بھی لے آتے۔ اور پھر اکتوبر 2021 کی ایک تلخ شام ڈی جی آئی ایس آئی کی سمری ٹھکرائے جانے کے بعد ریاست کے یوٹرن نے وہ داغ دیا کہ آج اسٹیبلیشمنٹ کے دامن میں ندامت کے سوا کچھ بھی نہیں۔ بقول فیض صاحب

’مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ‘

اور یہ بھی کہ

’اور کیا دیکھنے کو باقی ہے

آپ سے دل لگا کے دیکھ لیا‘ عاصمہ شیرازی لکھتی ہیں کہ ریاست اندھی، گونگی، بہری نہیں ہوتی۔ ریاست آنکھوں سے دیکھ سکتی ہے اورآنکھیں نکال بھی سکتی ہے، کانوں سے سُن سکتی ہے اور کانوں میں سیسہ پگھلا کر ڈال بھی سکتی ہے۔ ریاست کے دانت بھی ہیں اور انہی دانتوں سے کاٹ بھی سکتی ہے۔

ریاست کے کئی تعارف ہیں، کئی ایک کردار ہیں، کئی ایک مزاج ہیں۔ بے رحم اور سنگلاخ چٹانوں میں بسنے والے بلوچ ریاست کے دانتوں سے واقف ہیں اور آئے روز پریس کلبوں، کراچی کی سڑکوں، اسلام آباد کے ڈی چوک پر کھڑے اظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

افغانستان سے جُڑے پختونخوا نے متعدد بار اپنی جغرافیائی سرحد کی حیثیت کا خمیازہ چُکایا ہے۔ عالمی سینٹر سٹیج پر تاوان کی بھینٹ چڑھنے والے پختون اپنی راہ میں بچھائے جانے والے کانٹوں کو چُنتے چُنتے انہی کانٹوں کو ہی زیور بنا بیٹھے ہیں۔

ریاست نے جس خوب طرح سے کبھی جہاد کی آگ کا ایندھن پختونوں کو بنایا اور کبھی تبدیلی کی معصوم خواہش کو کیش کرایا، یہ بھی ایک کُھلا سچ نہیں تو اور کیا ہے۔

پراجیکٹ ’مجاہدین‘ کا یوٹرن ہو یا پراجیکٹ طالبان، ریاست کا ہر تجربہ ’خودکش‘ ہی ثابت ہوا ہے۔ یوں تو ریاست کے کئی پراجیکٹ خود اُس کے لیے شرمندگی کا باعث بنے مگر ’پراجیکٹ تبدیلی‘ کی فائل سے اُٹھتا دھواں سانس بند کر دے گا یہ کسی نے سوچا بھی نہ تھا۔

غداری اور کُفر کے فتوے بانٹتے ’کِی بورڈ جنگجوؤں‘ کی فورس کی تخلیق ’ایک صفحے‘ کی حکومت کے اعلیٰ مقاصد کا حصہ قرار پائی اور ہر منفی خبر کی مثبت رپورٹنگ پاکستان کی جڑوں میں بیٹھ گئی۔ سوال اٹھانے والے معتوب اور الزام لگانے والے معتبر بنائے گئے۔

اور اب ففتھ جنریشن وار فیئر کے ’ففتھیے‘ جس انداز میں جمہوریت، آزادی رائے اور انسانی حقوق کو اپنے حق میں استعمال کرتے نظر آتے ہیں، سُن کر حیرت ہی نہیں خفقان ہونے لگتا ہے۔ الہیٰ یہ ماجرا کیا ہے؟ ایک صفحے کی حکومت کے ’فیض یاب‘ آج اسٹیبلیشمنٹ مخالف بیانیے کا پرچار کرتے نظر آتے ہیں . عاصمہ شیرازی کہتی ہیں کہ پیچھے مُڑ کر دیکھتے ہیں تو جیسے پچھتاؤں کی ایک آندھی ہے جو کسی کے قابو میں نہیں۔ عجب دوراہا ہے کہ جمہوریت کے داعی اس بات سے خوفزدہ کہ جمہور کی حکمرانی کیسی ہو گی۔ کیا اسلام آباد جوڈیشل کمپلیکس پر جتھ سازی جیسی ہو گی؟ آئین پسند اس بات پر پریشان کہ آئین کے لبادے میں کہیں فسطائیت نہ پنپ جائے، آزادی اظہار کے خواہاں اس بات پر فکر مند کہ گالی، الزام، بہتان اور جھوٹ کو کس آزادی کا نام دیا جائے؟ انسانی حقوق کے پرچارکر انتشار پسندوں کے وکیل اور عدالتوں میں انصاف کی حاضریاں طویل۔

آئین کے معنی کب بدلے، جمہوریت نے فسطائیت کی راہ کب ہموار کی اور اظہار کی آزادی محض الزام تراشی کی سند کب بن گئی اس کا علم ریاست کو تب ہوا جب وہ خود یرغمال بنی۔

اب آگے کا راستہ کون متعین کرے گا؟ بہتر ہے کہ بے حال معیشت کا حال ٹھیک کیا جائے۔ آئین کی سربلندی عوام کی خوشحالی سے جُدا کیسے ہو سکتی ہے، آئین میں عوام کے ریلیف کی شق ڈالی جائے یا اُس پر عمل کیا جائے۔ عوام ہیں تو نظام ہے، کاش اب پراجیکٹ عوام شروع کیا جائے۔۔

ماہرہ خان نے سیاست میں ’’پٹھان‘‘ کی حمایت کا اعلان کر دیا

Related Articles

Back to top button