جنگ بندی سے قبل ایران کے اسرائیل پر مزید حملے

ایران اور اسرائیل کے مابین جاری جنگ میں جنگ بندی سے قبل ایران کے اسرائیل پر مزید میزائل حملوں میں 3 اسرائیلی ہلاک ہو گئے، جب کہ ایران پر اسرائیلی حملے میں ایک ایرانی ایٹمی سائنسدان شہید ہوگئے۔

ایران اور اسرائیل کے مابین ممکنہ جنگ بندی معاہدے پر عملدرآمد سے پہلے دونوں ملکوں کے درمیان شدید حملوں کا تبادلہ ہوا۔

ایرانی میزائل حملوں میں تین اسرائیلی شہری ہلاک ہو گئے، جب کہ اسرائیلی فضائی کارروائیوں کے نتیجے میں ایران کے ایک ایٹمی سائنسدان شہید ہو گئے۔
ذرائع کے مطابق ایران نے جنگ بندی سے ٹھیک پہلے درجنوں میزائل فائر کیے جن میں سے اکثر کو اسرائیلی دفاعی نظام نے شناخت کرلیا۔ حملے کے دوران تل ابیب سمیت کئی شہروں میں خطرے کے سائرن بجائے گئے، جس سے عوام میں شدید خوف پھیل گیا۔ حکام نے شہریوں کو فوری طور پر محفوظ پناہ گاہوں میں منتقل ہونے کی ہدایت دی۔

دوسری جانب ایرانی میڈیا کا دعویٰ ہے کہ اسرائیل نے تہران پر شدید فضائی حملے کیے، جن کے نتیجے میں دارالحکومت تہران کے کئی علاقوں میں زوردار دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں۔
ایرانی حکام کے مطابق، ان حملوں میں اب تک 400 سے زائد افراد شہید اور 3,056 زخمی ہوچکے ہیں۔

امریکی میڈیا نے بتایا ہے کہ مرکزی تہران میں واقع فوجی انٹیلی جنس کے علاقے میں بھی دھماکے سنے گئے، جب کہ ضلع 7 کو خالی کرانے کے بعد وہاں مزید دھماکوں کی اطلاعات موصول ہوئیں۔

اسرائیلی میڈیا کے مطابق حیفہ کے قریب آئرن ڈوم انٹرسیپٹر سسٹم تکنیکی خرابی کا شکار ہوگیا۔ میڈیا کا کہنا ہے کہ ایرانی حملوں سے تل ابیب اور دیگر علاقوں میں خاصی تباہی ہوئی ہے۔

ادھر خبر رساں اداروں نے اطلاع دی ہےکہ عراق کے دارالحکومت بغداد میں بھی دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں، جب کہ ایران نے عراق میں واقع امام علی ایئربیس اور تاجی ملٹری بیس کو بھی نشانہ بنایا، جو کہ اتحادی افواج کے زیر استعمال ہیں۔

تاحال ان حملوں کی ذمہ داری کسی فریق کی جانب سے باضابطہ طور پر قبول نہیں کی گئی۔
ایران نے مزید دعویٰ کیا ہےکہ اس نے ایک اسرائیلی ڈرون کو مار گرایا،جو مبینہ طور پر ایرانی فضائی حدود کی خلاف ورزی کررہا تھا۔ ایرانی حکام نے اس کارروائی کو دفاعی اقدام قرار دیا ہے۔

یہ سب کچھ ایسے وقت میں پیش آیا ہے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے دونوں ممالک کے درمیان ممکنہ مکمل جنگ بندی کے اعلان نے دنیا بھر میں امید کی ایک نئی لہر پیدا کی تھی۔

Back to top button