پاکستان کی امریکہ کو پسنی میں بندرگاہ بنانے کی پیشکش

 

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی خوشنودی کیلئے انہیں نوبیل امن انعام کے لیے نامزد کرنے والی حکومت پاکستان نے اب امریکہ کو بلوچستان کے ساحلی علاقے پسنی میں گہرے سمندر کی بندرگاہ تعمیر کرنے اور اسے چلانے کی پیشکش کر دی ہے۔
یاد رہے کہ پسنی کی بندرگاہ پر پاکستانی بحریہ کا دفاعی اڈہ بھی موجود ہے۔ پسنی کی بندر گاہ کراچی سے براستہ خشکی دو سو میل کے فاصلے پر ہے۔اس کے علاوہ پَسنی سے منسلک ہوائی اڈہ مشترکہ طور پر نیوی، ایئر فورس اور سول ایوی ایشن ٹرمینلز کے لیے ایک اہم سہولتی مرکز کی حیثیت رکھتا ہے۔

برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستانی حکام نے خود امریکی حکام سے رابطہ کرکے انہیں پسنی میں بندرگاہ تعمیر کرنے کی پیشکش کی ہے۔
رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ امریکی سرمایہ کاروں کو پسنی میں ایک بندرگاہ تعمیر کرنے اور آپریٹ کرنے کی تجویز دی گئی ہے تاکہ دونوں ممالک مل کر پاکستان کے قیمتی معدنی وسائل تک رسائی حاصل کر سکیں۔ یہ پیشکش ایسے وقت سامنے آئی ہے جب گزشتہ ماہ آرمی چیف عاصم منیر اور وزیرِ اعظم شہباز شریف نے وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کی تھی۔ اس تاریخی ملاقات میں وزیرِاعظم نے امریکی کمپنیوں کو پاکستان کے زرعی، ٹیکنالوجی، توانائی اور معدنی شعبوں میں سرمایہ کاری کی دعوت دی تھی۔

فنانشل ٹائمز کے مطابق امریکی حکام کو پسنی میں بندرگاہ بنانے کی تجویز اس ملاقات کے بعد دی گئی۔ اخبار کا دعوی ہے کہ آرمی چیف کو بھی صدر ٹرمپ سے ملاقات سے قبل بندرگاہ منصوبے پر بریفنگ دی گئی تھی۔ منصوبے میں واضح کیا گیا ہے کہ اس بندرگاہ کو کسی بھی امریکی فوجی اڈے کے لیے استعمال نہیں کیا جائے گا، بلکہ اس کا مقصد دونوں ممالک کے مابین ترقیاتی سرمایہ کاری کو متوجہ کرنا ہے۔

یاد رہے کہ پسنی بلوچستان کے ضلع گوادر کا ایک ساحلی شہر ہے، جو افغانستان اور ایران کی سرحد کے قریب واقع ہے۔ گوادر میں پہلے ہی چین کے تعاون سے ایک گہرے سمندر کی بندرگاہ قائم ہو چکی ہے۔ فنانشنل ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی جانب سے پسنی میں بندر گاہ تعمیر کرنے کی تجویز کے ساتھ ساتھ ایک ریل نیٹ ورک بچھانے کی تجویز بھی دی گئی ہے، جو اس بندرگاہ کو پاکستان کے معدنی وسائل سے مالامال مغربی صوبوں سے منسلک کرے گا۔ اس وقت پسنی پورٹ ایک درمیانی درجے کی بندرگاہ ہے جو کہ مکران کے ساحل پر ماہی گیروں کے مرکز کے طور پر بھی جانی جاتی ہے۔ اس بندگاہ کے گرد و نواح کے علاقوں میں لوگوں کے روزگار کا بنیادی ذریعہ ماہی گیری ہے جو پسنی کی معیشت میں انتہائی معاون کردار ادا کرتا ہے۔

چونکہ پسنی کی زمین کھارے پانی کے باعث قابل کاشت نہیں اسلیے یہ بندرگاہ دیگر پاکستانی بندرگاہوں سے مقامی لوگوں کے لیے خوراک، زرعی اجناس اور کھانے پینے کی دیگر اشیاء ذخیرہ کرنے کی سہولت فراہم کرتی ہے۔ یہ بندرگاہ ماہی گیری کی سرگرمی کے لیے جدید طریقے کے ساتھ برآمدی پیداوار کو پروسیس کرنے اور پیک کرنے کے لیے جدید ترین سہولیات بھی فراہم کرتی ہے۔ پسنی کی موجودہ بندرگاہ بلوچستان اور سندھ کے علاقے میں ماہی گیری کے محکمے کے لیے تحقیق کا فریضہ بھی سر انجام دیتی ہے۔ یہ علاقہ برآمدی سرگرمیوں کا ایک بڑا تجارتی مرکز ہے۔ یہاں برآمدی سامان کو بندرگاہ کے احاطے میں پروسیس کرنے کے بعد پیک کر کے کراچی پورٹ کی بندرگاہ پر بھیجا جاتا ہے۔ یہ سہولت یورپی یونین کے ممالک کو برآمد کرنے کی ضروریات کو پورا کرنے میں مدد فراہم کرتی ہے۔

پسنی کی بندرگاہ پاکستان کے بڑے شہروں سے بذریعہ سڑک اور بزریعہ فضائی راستہ مکمل طور پر منسلک ہے۔ پسنی میں ایک نیول بیس بھی موجود ہے جو پاکستانی دفاعی سرگرمیوں کا اہم ترین مرکز ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان میں بین الاقوامی تجارتی سرگرمیوں بالخصوص برآمدی اور درآمدی اشیاء کی ترسیل کے لیے آٹھ بڑی بندر گاہیں موجود ہیں۔ ان میں کراچی بندرگاہ، محمد بن قاسم اور گوادر بندرگاہ زیادہ نمایاں ہیں۔ گوادر بندرگاہ دنیا کی سب سے گہری بندرگاہوں میں سے ایک ہے اور تزویراتی محل وقوع کی وجہ سے بہت اہمیت رکھتی ہے۔ اسی طرح کراچی کی بندرگاہ پاکستان کی مصروف ترین بندرگاہ ہے جسے پاکستان کا اقتصادی مرکز سمجھا جاتا ہے۔

Back to top button