حکومت نے عوام کیلئے دستیاب سستی گاڑیاں بھی مزید مہنگی کر دیں

 

وفاقی حکومت نے عوام کیلئے استعمال شدہ سستی گاڑی کا حصول بھی نا ممکن بنا دیا ہے۔  گاڑیوں کی کمرشل درآمد پر 40 فیصد ڈیوٹی نافذ ہونے کے بعد امپورٹڈ کارز کی قیمتیں آسمان کو چھوتی دکھائی دیتی ہیں۔ناقدین کے مطابق امپورٹڈ گاڑیوں پر عائد 40 فیصد اضافی ڈیوٹی کا بوجھ براہِ راست عوام کو برداشت کرنا پڑے گا۔ پاکستان میں پہلے ہی گاڑیاں خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں کہیں زیادہ مہنگی ہیں۔ اس نئی پالیسی کے بعد جو استعمال شدہ گاڑیاں درآمد ہوں گی، وہ بھی قیمت کے اعتبار سے مقامی طور پر تیار شدہ گاڑیوں کے برابر یا اس سے بھی زیادہ مہنگی ہو جائیں گی۔ اس طرح درآمدی گاڑیوں کی کمرشل امپورٹ کے فیصلے سے خوش پاکستانی صارفین کیلئے بہتر آپشنز مزید محدود ہو جائیں گے۔

خیال رہے کہ وفاقی حکومت نے ابتدائی طور پر زیادہ سے زیادہ پانچ سال پرانی گاڑیوں کی درآمد کی اجازت دے دی ہے اس حوالے سے اقتصادی رابطہ کمیٹی کے جاری کئے گئے اعلامیے کے مطابق استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمدی پالیسی فوری طور پر نافذ العمل ہو گی جبکہ جون 2026 کے بعد پانچ سال والی حد بھی ختم کر دی جائے گی۔جون 2026 تک استعمال شدہ گاڑیوں کی کمرشل درآمد پر موجودہ کسٹمز ڈیوٹیز کے علاوہ 40 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی عائد ہو گی تاہم اس اضافی ڈیوٹی کو 2029-30 تک ختم کر دیا جائے گا۔

ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا 40فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی کے نفاذ کے ساتھ گاڑیوں کی کمرشل بنیادوں پر درآمد کی اجازت ملنے کے بعد پاکستان میں گاڑیاں سستی ہونگی؟ ماہرین کے مطابق گاڑیوں کی درآمدات کے باوجود پاکستان میں گاڑیوں کے سستا ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے کیونکہ ٹیکسز اور ڈیوٹیز تو درآمد شدہ پرانی گاڑیوں پر بھی بہت زیادہ ہیں مگر پھر بھی درآمدی گاڑیاں عام صارفین کے لیے بہتر متبادل ہوسکتی ہیں۔تاہم تمام چھوٹی بڑی گاڑیوں پر 40 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی کے نفاذ کے بعد عام لوگوں کے لیے قیمت کم ہونے کی بجائے مزید بڑھ جائے گی۔ لوکلائزیشن ہونے تک پاکستان میں گاڑیوں کی قیمتوں میں کمی ممکن نہیں۔۔

واضح رہے کہ ایف بی آر نے باضابطہ طور پر نوٹیفیکیشن جاری کرتے ہوئے استعمال شدہ گاڑیوں کی کمرشل درآمد کی اجازت دیتے ہوئے ان پر 40 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی بھی عائد کر دی ہے۔یہ ڈیوٹی ان گاڑیوں پر لاگو ہوگی جو امپورٹ پالیسی آرڈر 2022 کے تحت مخصوص شرائط کے ساتھ درآمد کی جائیں گی۔ایف بی آر نے اس اقدام کے تحت ایک طرف کمرشل گاڑیوں کی درآمد کے حوالے سے آٹوموبیل انڈسٹری کا مطالبہ تسلیم کیا ہے، جبکہ دوسری طرف درآمدات کو محدود کرنے اور غیرملکی زرمبادلہ کے بہاؤ پر قابو پانے کے لیے 40 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی بھی عائد کی ہے، جسے مرحلہ وار کم کیا جائے گا۔

یاد رہے کہ اس فیصلے سےقبل پاکستان میں استعمال شدہ گاڑیوں کی کمرشل بنیادوں پر درآمد، یعنی کاروباری مقاصد کے لیے بڑی تعداد میں گاڑیاں منگوانا مکمل طور پر ممنوع تھی۔ اوورسیز پاکستانیوں کے لیے چند سکیمیں موجود تھیں جن میں پرسنل بیگیج سکیم، گفٹ سکیم اور ریزیڈنس ٹرانسفر سکیم کے تحت اوورسیز پاکستانی اپنی ذاتی یا خاندانی استعمال کی گاڑی پاکستان لا سکتے تھے، لیکن انہیں بھی کمرشل بنیادوں پر بیچنے کی اجازت نہیں تھی۔حکومت نے اب پہلی مرتبہ ملک میں ڈیلرز اور امپورٹرز کو بھی کمرشل بنیادوں پر استعمال شدہ گاڑیاں بیرون ملک سے درآمد کر کے پاکستان میں فروخت کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ تاہم ساتھ ہی یہ شرط بھی عائد کر دی گئی ہے کہ ایسی گاڑیوں پر 40 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی لاگو ہوگی تاکہ درآمدات بے قابو نہ ہوں اور حکومت کو اضافی ریونیو بھی حاصل ہوتا رہے۔
آٹ موبیل ماہرین کا حکومت کے گاڑیوں کی کمرشل امپورٹ کی اجازت دینے کے فیصلے کو  خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہنا ہے کہ استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد پر 40 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کرنے کا حکم عوام کے ساتھ ظلم ہے کیونکہ  پاکستان میں پہلے ہی گاڑیوں پر 200 فیصد تک ڈیوٹی عائد ہے اور اب حکومت کے اس فیصلے کے بعد  استعمال شدہ کمرشل گاڑیوں کی مقامی مارکیٹ میں قیمت میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔ جس کا سارا بوجھ عوام کو برداشت کرنا پڑے گا۔ حکومت نے 40فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی کے ساتھ کمرشل بنیادوں پر گاڑیوں کی امپورٹ کی اجازت دے کر عوام سے سستی گاڑیوں کے حصول کی دستیاب سہولت بھی چھین لی ہے۔

Back to top button