الیکشن کمیشن کا سیاسی جماعتوں کو ٹائٹ کرنے کا فیصلہ

الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعتوں پر مزید شکنجہ کسنے کا فیصلہ کرتے ہوئےوفاقی حکومت سے انٹرا پارٹی انتخابات میں مداخلت سمیت متعدد اختیارات مانگ لیے۔ تاہم شہباز حکومت نے اس حوالے سے فوری جواب دینے سے اجتناب کرتے ہوئے اتحادی جماعتوں سے مشاورت کرنے کاعندیہ دے دیا ہے جبکہ پی ٹی آئی سمیت اپوزیشن جماعتوں نے ایسے کسی بھی اقدام کے خلاف عدالت جانے کا اعلان کر دیا ہے۔
خیال رہے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے وزارت قانون کو سفارشات پر مبنی ایک مسودہ بھجوایا گیا ہے جس میں سیاسی جماعتوں کی رجسٹریشن، انتخابی نشانات کی الاٹمنٹ اور خواتین کی نمائندگی کے حوالے سے پائے جانے والے مسائل کو دور کرنے کیلئے مختلف ترامیم تجویز کی گئی ہیں جبکہ کمیشن کی جانب سے سیاسی جماعتوں میں جمہوریت کو مزید مضبوط کرنے کیلئے انٹرا پارٹی انتخابات کی نگرانی کا اختیار بھی مانگا گیا ہے۔
الیکشن کمیشن نے اپنی سفارشات میں 2024 کے عام انتخابات کے دوران انتخابی نشانات کی الاٹمنٹ کے حوالے سے بھی مختلف مسائل کی نشاندہی کی ہے۔ کمیشن کے مطابق اس دوران کُل 150 سیاسی جماعتوں اور ایک اتحاد، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کو انتخابی نشانات الاٹ کیے گئے تھے لیکن ان میں سے صرف 112 جماعتیں عملی طور پر انتخابی میدان میں اتریں۔ بعض جماعتوں نے نشانات لینے کے باوجود انتخاب میں حصہ نہیں لیا جبکہ کچھ جماعتوں نے اپنے پرانے نشانات کے لیے درخواست ہی جمع نہیں کرائی اور یہ نشان دوسری جماعتوں کو دے دیے گئے۔ بعد میں انہی جماعتوں نے دوبارہ وہی نشان طلب کیے جس سے پیچیدگی پیدا ہوئی۔ کمیشن نے اس مسئلے کو ختم کرنے کے لیے تجویز دی ہے کہ دفعہ 216 میں ترمیم کر کے یہ واضح کیا جائے کہ مقررہ آخری تاریخ کے بعد کسی جماعت کی جانب سے انتخابی نشانات کے لیے نئی درخواست قبول نہیں کی جائے گی اور یہ اصول ہر عام انتخاب پر یکساں طور پر لاگو ہو گا۔
الیکشن کمیشن کے مطابق سیاسی جماعتوں کے انٹرپارٹی انتخابات کی شفافیت جانچنے کے لیے قانون میں کوئی شق موجود نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں بڑی تعداد میں جماعتیں وجود میں آ جاتی ہیں لیکن ان کے اندر جمہوری ڈھانچہ اور تنظیمی انفراسٹرکچر کمزور رہتا ہے۔ کمیشن نے سفارش کی ہے کہ الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعہ 208 میں ترمیم کر کے کمیشن کو یہ اختیار دیا جائے کہ وہ اپنے افسران پر مشتمل ٹیم کے ذریعے سیاسی جماعتوں کے اندرونی انتخابات کا مشاہدہ کرے اور اس کی رپورٹ اپنی سالانہ رپورٹ کے ساتھ پارلیمنٹ میں پیش کرے۔

الیکشن کمیشن کے اس مطالبے پر حکومت نے معنی خیز خاموشی اختیار کر رکھی ہے تاہم الیکشن کمیشن کی ان سفارشات پر سیاسی جماعتوں کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آنے کا امکان ہے کیونکہ مختلف جماعتیں پہلے ہی انٹرا پارٹی انتخابات کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کر چکی ہیں۔ بعض سیاسی رہنماؤں کا مؤقف ہے کہ الیکشن کمیشن جماعتوں کے اندرونی انتخابات کو تسلیم نہیں کرتا جس کی وجہ سے سیاسی عمل میں انھیں مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ناقدین کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کی مثال سب کے سامنے ہے جس کے انٹرا پارٹی انتخابات کو تاحال تسلیم نہیں کیا گیا۔ اسی وجہ سے عام انتخابات میں پی ٹی آئی نہ صرف انتخابی نشان سے محروم رہی بلکہ اس کے امیدواروں کو بھی آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنا پڑا۔ پی ٹی آئی رہنماؤں کے مطابق اگر اس حوالے سے حکومت کی جانب سے کوئی بھی کوشش کی تو وہ خاموش نہیں بیٹھیں گے بلکہ سڑکوں پر صدائے احتجاج بلند کرتے ہوئے عدالتوں میں بھی اس قانون سازی کو چیلنج کرینگے۔
سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کے مطابق سیاسی جماعتوں کے اندر شفاف اور بروقت انٹرا پارٹی انتخابات کرانے کی ذمہ داری خود سیاسی جماعتوں پر عائد ہوتی ہے لیکن ان انتخابات کی توثیق کا اختیار الیکشن کمیشن کے پاس ہونا چاہیے۔ اگر جماعتیں اپنے اندرونی انتخابات کو آئینی اور قانونی تقاضوں کے مطابق کرائیں گی تو الیکشن کمیشن کے لیے انہیں تسلیم نہ کرنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ تاہم جب جماعتیں انٹرا پارٹی انتخابات کو رسمی کارروائی کے طور پر کرتی ہیں یا قواعد و ضوابط پر عمل نہیں کرتیں تو الیکشن کمیشن کے پاس انہیں مسترد کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں رہتا۔

Back to top button

Adblock Detected

Please disable the adblocker to support us!