الیکشن 2024،کیا واقعی عوام سیاستدانوں سے بیزار ہو چکے ہیں؟

پاکستان میں عام انتخابات کے انعقاد میں تین ہفتوں سے بھی دن باقی رہ گئے ہیں لیکن ماضی کے برعکس اس مرتبہ ملک کے سڑکوں، چوکوں اور چوراہوں پر جگہ جگہ سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کے بینرز اور پوسٹرز کچھ کم لگے دکھائی دے رہے ہیں۔پاکستان کے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر بھی اگر نظر دوڑائی جائے تو یہاں بھی ان سیاسی جماعتوں کے اشتہارات کی بھرمار دکھائی نہیں دیتی۔

اگر ماضی کے انتخابات کے وقت کو یاد کریں تو ٹی وی و اخبارات کے اشتہاروں میں کہیں بلے کا زور تھا، کہیں شیر کی دھاڑ تو کبھی تیر کا نشانہ مگر اس بار نہ کوئی اشتہارات کی بھرمار ہے اور نہ ہی جلسے جلوسوں اور انتخابی دفاتر کے باہر بیٹھے افراد کی گہما گہمی۔ مگر کیوں؟ملک میں عام انتخابات کے انعقاد میں تین ہفتوں سے بھی کم وقت رہ جانے کے باوجود سیاسی کارکنوں اور عام لوگوں میں بھی جوش و خروش کچھ کم معلوم ہوتا ہے۔پاکستان میں تقریباً تمام ہی چھوٹی، بڑی سیاسی جماعتیں اور آزاد امیدوار انتخابی مہم کی تیاریوں کا دعویٰ کر رہے ہیں لیکن جلسوں سمیت سیاسی سرگرمیوں میں واضح کمی نظر آ رہی ہے۔

پاکستان میں بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنما اس مشاہدے سے جزوی طور پر اتفاق کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ سیاسی رہنماوں اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سڑکوں اور گلیوں میں انتخابی گہما گہمی کم ہونے کی متعدد وجوہات ہیں جن میں انتخابات سے متعلق لوگوں میں غیریقینی، لوگوں کا مبینہ طور پر سیاست سے اٹھتا اعتماد، موسم کی سختی اور ایک بڑی سیاسی جماعت کا انتخابی دنگل سے بظاہر باہر ہونا شامل ہے۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان اور سپریم کورٹ یہ واضح کر چکے ہیں کہ انتخابات آٹھ فروری کو ہی ہوں گے اور ان میں کسی قسم کا التوا نہیں ہوگا۔ پھر انتخابات کے حوالے سے بے یقینی کیوں پائی جاتی ہے؟

پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما قمر زمان کائرہ کے مطابق یہ مشاہدہ درست ہے کہ اس بار انتخابی گہما گہمی میں کمی دیکھنے میں آ رہی ہے جس کی وجہ لوگوں میں انتخابات کے حوالے سے پھیلی ہوئی غیر یقینی ہے۔‘قمر زمان کائرہ کا مزید  کہنا ہے کہ ان کی جماعت نے انتخابی مہم شروع کر رکھی ہے لیکن پاکستان مسلم لیگ ن نے اپنی انتخابی مہم ابھی شروع کی ہے شاید اس لیے بھی انتخابی جوش و خروش کچھ کم نظر آ رہا ہے۔

 دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ ن کی رہنما اعظمیٰ بخاری نے پنجاب میں سیاسی جوش و خروش میں کمی کی سب سے بڑی وجہ موسم کی سختیوں اور ’سرد موسم‘ کو قرار دیا۔اعظمیٰ بخاری نے پاکستان تحریک انصاف کا نام لیے بغیر انتخابی گہما گہمی میں کمی کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ ’پنجاب میں سیاسی ہلچل اس لیے بھی نہیں کیونکہ یہاں ہمارے مقابلے میں ہی کوئی نہیں، ایک دوسری جماعت ہے جو کہ گراونڈ پر موجود نہیں اور ان کے امیدوار آزاد حیثیت میں الیکشن لڑ رہے ہیں۔‘

پاکستانی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار ضیغم خان کا خیال ہے کہ انتخابی گہما گہمی کے لیے سیاسی مقابلہ ضروری ہے لیکن اس بار سیاسی مقابلہ ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ ’سندھ میں کراچی اور دیگر شہری علاقوں کے علاوہ پاکستان پیپلز پارٹی کا سیاسی پلڑہ بھاری نظر آتا ہے۔ کچھ علاقوں میں ایم کیو ایم ہے اور کچھ علاقوں میں پیرپگارا اور وہیں مقابلہ ہوتا ہے جس سے سیاسی گہما گہمی نظر آتی ہے۔‘ضیغم خان مزید کہتے ہیں کہ ’پنجاب کا صوبہ سندھ کے مقابلے میں تھوڑا مختلف اس لیے ہے کیونکہ وہاں ہمیشہ انتخابات میں دو بڑی پارٹیوں کا مقابلہ ہوتا آیا ہے۔‘’پہلے یہ مقابلہ پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان ہوتا تھا اور پچھلے تقریباً دو انتخابات میں ہم نے یہ مقابلہ پاکستان مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کے درمیان ہوتا ہوا دیکھا۔‘تاہم پی ٹی آئی اس وقت سیاسی اکھاڑے میں موجود ہی نہیں۔’پنجاب میں اب صرف ایک ہی پہلوان ہے، جب برابر کی ٹکر ہی نہیں تو سیاسی گہما گہمی کیسے نظر آئے گی؟‘

سیاسی تجزیہ کار ضیغم خان کا خیال ہے کہ ملک اس وقت ایک ’سیاسی بحران‘ کا شکار ہے اور لوگ سمجھتے ہیں کہ ’ان کے مسائل اور پریشانیاں حل نہیں ہو رہیں۔‘لیکن وہ اس تاثر سے اتفاق نہیں کرتے کہ لوگوں کا اعتماد سیاسی عمل سے مکمل طور پر اٹھ چکا ہے۔انھوں نے مزیدکہا کہ ’اس سوال کا جواب الیکشن میں ہی ملے گا اگر ووٹر ٹرن آوٹ کم ہوا تو یہ بات کہی جا سکے گی کہ لوگوں کا اعتماد کم ہوا ہے۔ لیکن ذاتی طور پر مجھے نہیں لگتا

الیکشن 2024 میں قیدی ووٹ کے حق سے محروم کیوں ہوگئے؟

کہ ووٹر ٹرن آؤٹ اس حد تک کم ہوگا۔‘

Back to top button