کیا پاکستان پیپلز پارٹی بلوچستان کو فتح کر پائے گی؟

الیکشن کمیشن کی جانب سے عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہونے کے بعد ملک میں سیاسی گہما گہمی شروع ہو گئی ہے اور سیاسی منظر نامہ ہر گزرتے دن کے ساتھ بدلتا جارہا ہے۔مرکز کی بڑی سیاسی جماعتیں اس وقت چھوٹے صوبوں میں اپنی سیاسی قوت کا مظاہرہ کرنے میں مصروف نظر آتی ہیں، بلوچستان میں مسلم لیگ ن کے بعد اب پاکستان پیپلز پارٹی 30 نومبر کو یوم تاسیس کے موقع پر سیاسی قوت کا مظاہرہ کرے گی جس کے لیے پیپلز پارٹی کے مرکزی سطح کے رہنماؤں کی کوئٹہ آمد کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔پیپلز پارٹی کے مطابق یوم تاسیس کے موقع پر ہونے والے جلسے میں سابق صدر مملکت آصف علی زرداری اور چیئرمین بلاول بھٹو زرداری شریک ہوں گے، پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت جلسے کو کامیاب بنانے کے لیے مختلف سیاسی رہنماؤں سے ملاقاتوں کے علاوہ بڑے پیمانے پر شہر میں ریلیوں کا بھی انعقاد کر رہی ہے۔
پیپلزپارٹی کے مرکزی رہنما خورشید شاہ کا اس ھوالے سے کہنا ہے کہ یوم تاسیس صرف پیپلز پارٹی کا نہیں بلکہ پورے پاکستان کے عوام کا دن ہے۔ پیپلز پارٹی ہمیشہ عوام کی لڑائی لڑتی رہی ہے۔دوسری جانب مبصرین کے مطابق پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت کا دورہ بلوچستان آمدہ الیکشن کے حوالے سے اہمیت کا حامل قرار دیا جا رہا ہے کہ عام انتخابات کی آمد آمد ہے اور پیپلز پارٹی سے قبل ن لیگ صوبے میں اپنی سیاسی ایڈجسٹمنٹ کر چکی ہے، ایسے میں ملک کی بڑی سیاسی جماعت پیپلز پارٹی بھی اس معاملے کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے بلوچستان کی قوم پرست، مذہبی و سیاسی جماعتوں سے رابطوں، ملاقاتوں اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا ارادہ تو رکھتی ہے لیکن کھل کر اب تک پیپلز پارٹی کے قائدین نے اس چیز کا اعتراف نہیں کیا۔انہوں نے کہاکہ پیپلزپارٹی کے یوم تاسیس پر بلوچستان میں جلسے کا انعقاد سیاسی پاور شو ہو گا کیونکہ مسلم لیگ ن پیپلز پارٹی سے ایک قدم پہلے بلوچستان میں آ کر کئی الیکٹیبلز کو اپنی پارٹی میں شامل کر چکی ہے اور اب اس گیم میں پیپلز پارٹی بھی پیچھے نہیں رہنا چاہتی۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے بقول چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو سمیت سینیئر رہنما لیول پلیئنگ فیلڈ نہ ملنے کا کھل کر اظہار کر چکے ہیں۔ تاہم پی پی قائدین کا یہ دورہ ان سیاسی رہنماؤں کے لیے انتہائی اہم ہو گا جنہوں نے ابھی تک اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ نہیں کیا۔انہوں نے کہاکہ آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو کے یوم تاسیس کے بعد چند روز کوئٹہ میں قیام کی خبر سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ اہم سیاسی رہنماؤں کو پیپلزپارٹی کا حصہ بنانے کے لیے کوششیں کی جائیں گی۔سیاسی مبصرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ آصف علی زرداری کے بلوچستان کی قبائلی شخصیات سے گہرے مراسم ہیں جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ وہ اپنے دورے کے دوران اہم رہنماؤں کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
پیپلز پارٹی کی بلوچستان میں دلچسپی کی وجہ کیا ہے؟ اس حوالے سے تجزیہ کار جلال نورزئی کہتے ہیں کہ ’بے نظیر بھٹو کی موت کے بعد بننے والی صوبائی حکومت کے بعد باقی دو مدتوں میں پیپلز پارٹی کا بلوچستان میں وجود برائے نام رہا۔‘ان کے بقول ’2018 کے اوائل میں پیپلز پارٹی نے بلوچستان میں دلچسپی دکھائی اور نواب ثنا اللہ زہری کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد لانے میں عبدالقدوس بزنجو کی مدد کی۔ آصف زرداری کے قریبی ساتھی سینیٹر عبدالقیوم سومرو خود کوئٹہ میں سرگرم رہے۔‘’تب بھی پاکستان پیپلز پارٹی کی خواہش رہی کہ بلوچستان میں الیکٹ ایبلز کو ساتھ ملا کر حکومت بنائے، تاہم اس وقت بلوچستان عوامی پارٹی کی تشکیل کی وجہ سے ایسا نہ ہو سکا۔‘
جلال نورزئی نے مزید کہا کہ ’رواں سال کے شروع تک پیپلز پارٹی کے لیے حالات سازگار نظر آ رہے تھے۔ جام کمال اور عبدالقدوس بزنجو سمیت کئی اہم شخصیات آصف زرداری کے ساتھ رابطے میں بھی رہیں۔ ارکان صوبائی اسمبلی ظہور بلیدی، سلیم کھوسہ، نعمت اللہ زہری، عارف محمد حسنی، سابق رکن قومی اسمبلی سردار فتح محمد حسنی، نوابزادہ جمال رئیسانی سمیت کئی اہم شخصیات اور الیکٹ ایبلز پیپلزپارٹی میں شامل ہوئیں۔‘انہوں نے بتایا کہ ’پھر یکایک بازی پلٹ گئی اور ہوا کا رُخ ن لیگ کی طرف ہو گیا، سلیم کھوسہ اور سردار فتح حسنی سمیت پیپلز پارٹی میں چند ماہ قبل شامل ہونے والی کئی شخصیات رواں ماہ کوئٹہ میں نواز شریف کے دورے کے موقع پر مسلم لیگ ن میں شامل ہو گئیں۔‘
جلال نورزئی کہتے ہیں کہ ’استحکامِ پاکستان پارٹی کے قیام کے بعد جنوبی پنجاب میں پاکستان پیپلز پارٹی کی امیدوں پر پانی پھر گیا ہے۔‘’مسلم لیگ ن اور ایم کیو ایم کی قُربتوں کے بعد بلوچستان میں الیکٹ ایبلز کی ن لیگ میں شمولیت آخری وار ثابت ہوا اور پیپلز پارٹی نے ن لیگ سے اختلافات اور اسٹیبلشمنٹ سے خفگی کا اظہار شروع کر دیا۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’پیپلز پارٹی ان حالات میں صوبہ بلوچستان پر توجہ دینا چاہتی ہے تاکہ وہ اپنی سیاسی
کیا عثمان پیرزادہ، ثمینہ پیرزادہ نے گھر سے بھاگ کر نکاح کیا؟
اور پارلیمانی قُوت میں اضافہ کر سکے۔‘