فوجی سربراہان کی تقرری کے صدارتی اختیار میں ترمیم کا امکان

27 ویں آئینی ترمیم کے مجوزہ ڈرافٹ میں سب سے اہم نقطہ آرٹیکل 243 میں ترمیم کا ہے کیونکہ یہ آرٹیکل صدر کے ان اختیارات سے متعلق ہے جو کہ مسلح افواج کے سپریم کمانڈر کی حیثیت کو واضح کرتا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 243 کے تحت صدر مسلح افواج کے سربراہان کو بھی تعینات کرتے ہیں۔ اسلام آباد میں یہ افواہیں بھی گرم ہیں کہ مجوزہ آئینی ترمیم کے ذریعے فوج میں سپریم کمانڈر یا چیف آف ڈیفنس سٹاف کا نیا عہدہ بھی تخلیق کیا جا رہا ہے۔
اگلے روز سینیئر صحافیوں سے ملاقات کے دوران جب فوجی ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف سے مجوزہ ترامیم بارے سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ آئین میں کونسی ترمیم ہو گی اور کونسی نہیں، اس بارے سیاست دانوں سے سوال کیا جانا چاہیے کیونکہ یہ سیاسی جماعتوں کا کام ہے۔ ہم بس اپنا ان پٹ دیتے ہیں۔ تاہم ابھی تک یہ ابہام ہے کہ حکومت 27ویں ترمیم کے ذریعے آئین کے انتہائی اہم آرٹیکل 243 میں کیا تبدیلی کرنے والی ہے۔ یاد رہے کہ گذشتہ سال اکتوبر میں 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد اب آئین میں 27ویں ترمیم بارے مشاورت شروع ہے۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کا کہنا ہے کہ وزیرِ اعظم شہباز شریف نے 27ویں ترمیم کی منظوری کے لیے انکی پارٹی کی حمایت کی درخواست کی ہے۔ بلاول نے اپنے ایکس اکاؤنٹ سے جاری ایک بیان میں کہا کہ مسلم لیگ ن کا ایک وفد وزیرِ اعظم شہباز شریف کی سربراہی میں ان سے اور صدر آصف علی زرداری سے ملا اور پیپلز پارٹی سے 27ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے حمایت کی درخواست کی۔ ان کے مطابق 27ویں آئینی ترمیم کے ذریعے آئینی عدالت قائم کی جائے گی، ججوں کے تبادلے کا قانون بنایا جائے گا، چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کا طریقہ کار بہتر بنایا جائے گا، فوجی سربراہان کی تقرری کے قانون میں ترامیم کی جائیں گی اور قومی مالیاتی کمیشن میں صوبائی شیئر کو حاصل تحفظ ختم کر دیا جائے گا۔ بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ صدر آصف زرداری کی دوحہ سے واپسی پر 6 نومبر کو اس معاملے پر پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی کا اجلاس ہو گا۔
وزیر مملکت برائے قانون بیرسٹر عقیل ملک کا کہنا ہے کہ آئینی عدالت کا قیام 26ویں آئینی ترمیم کے ایجنڈے کا حصہ تھا لہذا اسے 27 ویں ترمیم کے ذریعے پورا کیا جائے گا جبکہ فوجی سربراہان سے متعلق آرٹیکل 243 میں تبدیلی اس لیے زیرِ غور ہے کیونکہ آرمی چیف عاصم منیر کو دیے گئے فیلڈ مارشل کے عہدے کو ’آئینی کور‘ دینے کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ باضابطہ طور پر 27ویں ترمیم کے لیے کسی مسودے پر کام شروع نہیں کیا گیا مگر بات چیت چل رہی ہے۔ انھوں نے تصدیق کی کہ بلاول بھٹو کے بتائے گئے نکات پر بات چیت جاری ہے۔
یاد رہے کہ سال 2024 کے آخر میں ہونے والی 26ویں آئینی ترمیم نے ملکی سیاست میں ہلچل پیدا کر دی تھی کیونکہ اس ترمیم نے اعلیٰ عدالتی نظام کا سٹرکچر تبدیل کر کے رکھ دیا۔ اس آئینی ترمیم کے ذریعے سیاسی کیسز سننے کے لیے اعلی عدلیہ میں آئینی بینچز بنا دیے گئے تاکہ جوڈیشل ایکٹوازم کو لگام ڈالی جا سکے۔ اسکے علاوہ 26ویں ترمیم کے ذریعے سروسز چیفس کی مدت ملازمت تین سال سے بڑھا کر پانچ سال کر دی گئی، تاہم تحریک انصاف کا سوشل میڈیا بریگیڈ آج کل یہ پروپگینڈا کر رہا ہے کہ نومبر 2025 میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے عہدے کی معیاد ختم ہو رہی ہے۔ اگرچہ 4 نومبر 2024 کو پارلیمنٹ کے ذریعے مسلح افواج کے سربراہان کی مدتِ ملازمت تین سال سے بڑھا کر پانچ سال کر دی گئی تھی مگر انصافی حلقوں کی جانب سے کہا جارہا ہے کہ عاصم منیر کی تقرری کا نوٹیفکیشن چونکہ 29 نومبر 2022 کو تین سال کیلئے ہوا تھا اس لیے شاید ابھی نیا نوٹیفیکیشن جاری ہونا ہے۔
تاہم حکومت کے ذمہ دار ذرائع نے بتایا ہے کہ مسلح افواج کے سربراہان کی پانچ سالہ مدت طے شدہ ہے اور اس حوالے سے کوئی قانونی اقدام درکار نہیں، حکام کا کہنا ہے کہ 4 نومبر 2024 کو ہونے والی قانون سازی کے بعد تینوں سروسز چیفس اپنی تعیناتی کے بعد پانچ سال پورے کریں گے، یہ ترمیم حکومت کی منظوری سے ہی پارلیمان کے ذریعے پاس ہوئی تھی، لہٰذا اس میں کوئی ابہام نہیں ہے۔
حکام نے بتایا ہے کہ ایئر چیف ظہیر احمد بابر سدھو، جن کی تقرری 19 مارچ 2021 کو ہوئی تھی ،اسی قانون کے تحت اپنی خدمات کا چوتھا سال جاری رکھے ہوئے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ مارچ 2026 میں اپنی موجودہ مدت ملازمت پوری ہونے کے بعد بھی وہ خدمات جاری رکھیں گے کیونکہ بھارت کے خلاف معرکہ حق میں ائیر فورس کی شاندار کامیابی کے بعد حکومت نے 20 مئی 2025 کو اعلان کیا تھا کہ ائیر چیف ریٹائر نہیں ہوں گے اور انہیں ایکسٹینشن دی جا رہی ہے۔
اسی طرح چونکہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی تقرری 29 نومبر 2022 کو ہوئی تھی اس لیے ان کی پانچ سالہ معیاد 29 نومبر 2027 کو مکمل ہوگی۔ خیال رہے کہ پارلیمان یہ اختیار حکومت کو دے چکی ہے کہ وہ سروسز چیفس کی ریٹائرمنٹ کے بعد ان کی خدمات جاری رکھنے کا فیصلہ کر سکتی ہے، اس حوالے سے عمر کی کوئی قدغن نہیں رکھی گئی تھی۔
یاد رہے کہ پاکستان آرمی ایکٹ 1952ء میں ہونے والی ترمیم میں کہا گیا تھا کہ چیف آف آرمی سٹاف کی مدت ملازمت پانچ سال ہوگی اور جنرل کی ریٹائرمنٹ کی عمر اور سروس کی حد کا اطلاق آرمی چیف کی تعیناتی، دوبارہ تعیناتی یا ایکسٹینشن پر نہیں ہوگا، اسی طرح پاکستان نیول آرڈیننس 1961 میں کہا گیا ہے کہ نیول چیف کی مدت ملازمت پانچ سال ہوگی اور ایڈمرل کی ریٹائرمنٹ کی عمر، سروس کی حد کا اطلاق نیول چیف کی تعیناتی، دوبارہ تعیناتی یا توسیع پر نہیں ہوگا، پاکستان ایئر فورس ایکٹ 1953ء میں ہونے والی ترمیم میں کہا گیا ہے کہ ایئر چیف کی مدت ملازمت پانچ سال ہوگی اور ایئر چیف مارشل کی ریٹائرمنٹ کی عمر اور سروس کی حد کا اطلاق ایئر چیف کی تعیناتی ، دوبارہ تعیناتی یا توسیع پر نہیں ہوگا۔
پاک فوج کو غزہ امن منصوبے کا حصہ کیوں نہیں بننا چاہیے؟
وزیر مملکت بیرسٹر عقیل کا کہنا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 243 میں ترمیم کو ابھی حتمی شکل نہیں دی گئی لیکن فی الحال یہ واضح ہے کہ فیلڈ مارشل کے عہدے کو ’آئین میں لانا ضروری ہے۔‘ آرٹیکل 243 مسلح افواج کی کمانڈ سے متعلق ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ صدر مسلح افواج کے سپریم کمانڈر ہیں جو وزیر اعظم کے ساتھ مشاورت سے مسلح افواج کے سربراہان کا تقرر کرتے ہیں اور انکی تنخواہ اور مراعات کا تعین کرتے ہیں۔
آرٹیکل 243 میں مجوزہ ترمیم سے متعلق بیرسٹر عقیل کا کہنا تھا کہ 1973 کے آئین کے بعد پہلی بار ہوا ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے آرمی چیف عاصم منیر کو فیلڈ مارشل کے عہدے کا اعزاز دیا ہے۔ اب اسے ’آئینی کور‘ دینا ضروری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ فیلڈ مارشل کے عہدے کو آئین میں تسلیم کیا جانا چاہیے۔
