عمران حکومت نے پروفیسر وارث میر کو غدار کیوں قرار دیا تھا؟

معروف اینکر پرسن اور تجزیہ کار حامد میر نے کہا ہے کہ آج خود کو شیخ مجیب الرحمن بنا کر ہیرو بننے کی ناکام کوشش کرنے والے سابق وزیر اعظم عمران خان کے دور میں ان کے والد پروفیسر وارث میر مرحوم کو تحریک انصاف نے غدار قرار دیا تھا کیونکہ انہوں نے 1971 کے فوجی آپریشن کے دوران بے گناہ بنگالی عورتوں اور بچوں کے قتل عام کے خلاف آواز اٹھائی تھی۔ اپنی ایک تحریر میں حامد میر بتاتے ہیں کہ عمران خان کے دور حکومت میں حاکم اتنا گر گے کہ انکے مرحوم والد کو غدار قرار دیے جانے کے بعد انکی قومی خدمات کے اعتراف میں ان کے نام سے منسوب پروفیسر وارث میر انڈر پاس کا نام بھی بدل دیا گیا۔ 2019 میں تب کہ وزیر اطلاعات پنجاب فیاض الحسن چوہان نے ایک پریس کانفرنس میں میرے والد اور مجھے غدار وطن قرار دیا تو میں نے پیکا قانون کے تحت ایف آئی اے سائبر کرائمز ونگ کو درخواست دی۔ لیکن بدزبان وزیر موصوف کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی گئی۔

حامد میر کہتے ہیں کہ آج پاکستان میں تحریک انصاف کی نہیں بلکہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہے۔ آج تحریک انصاف کی قیادت سانحہ مشرقی پاکستان پر وہی باتیں کررہی ہے جو پہلے ہم کیا کرتے تھے اور جو گالی گلوچ تحریک انصاف کے سوشل میڈیا کمانڈوز ہمارے ساتھ کیا کرتے تھے وہی گالی گلوچ اور دھمکیاں مسلم لیگ ن کے حامیوں کا ہتھیار بن چکے ہیں۔ ہماری درخواست پر آج بھی ایف آئی اے کچھ نہیں کرتی۔ ہم تو وہیں کھڑے ہیں جہاں پہلے کھڑے تھے لیکن سیاسی جماعتوں کی پوزیشن بدل چکی ہے۔۔ حامد میر کہتے ہیں کہ تحریک انصاف کے کچھ دوست آج کل سوشل میڈیا اور ٹی وی ٹاک شوز پر مجھ ناچیز کے بارے میں ایک سوال اٹھا رہے ہیں۔ پی ٹی آئی والوں کا کہنا ہے کہ سانحہ مشرقی پاکستان کے بارے میں حمود الرحمان کمیشن کا ذکر کرنے پر عمران خان کے خلاف تو انکوائری شروع ہو چکی ہے لیکن حامد میر کے خلاف انکوائری کیوں نہیں ہوتی حالانکہ وہ اسی کمیشن کی رپورٹ سے سبق سیکھنے پر کئی مرتبہ زور دے چکے ہیں؟ سینیئر صحافی کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف والے بھول جاتے ہیں کہ 1971ء میں مشرقی پاکستان میں کئے جانے والے فوجی آپریشن کی مخالفت اور بنگلہ دیش کے عوام سے معافی مانگنے کی تجویز دینے پر تحریک انصاف کی اپنی حکومت ناصرف میرے ساتھ ناراض ہوئی بلکہ کئی عدالتوں میں مجھ پر غداری کا مقدمہ بنانے کیلئے درخواستیں بھی دائرکی گئیں۔ تحریک انصاف والوں کے پاس ایک ریڈی میڈ بہانہ یہ بھی ہے کہ جب عمران خان وزیر اعظم تھے تو اصل اختیارات جنرل قمر باجوہ کے پاس تھے، لہٰذا صحافیوں پر بنائے گئے مقدمات سے تحریک انصاف کی حکومت کا کوئی تعلق نہیں تھا۔

حامد میر کہتے ہیں کہ میں اس بحث میں نہیں پڑتا کہ اگر عمران خان کے پاس اختیارات نہیں تھے تو وہ اقتدار کے ساتھ کیوں چمٹے رہے کیونکہ پاکستان میں تمام وزرائے اعظم پاور پالیٹکس کے ذریعے اقتدار میں آتے ہیں۔ وہ جتنا عرصہ اقتدار میں رہتے ہیں، آرمی چیف کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے رہتے ہیں لیکن جیسے ہی انہیں اقتدار سے نکالا جاتا ہے تو وہ اپنی بےاختیاری کا رونا روتے ہیں۔ ہم جیسے لوگ ہر حکومت کی نظر میں گستاخ اور ہر اپوزیشن کے محبوب بن جاتے ہیں لیکن ہمارے ہوش اس وقت ٹھکانے آتے ہیں جب اپوزیشن والے کوئی نہ کوئی چکر چلا کر حکومت میں آتے ہیں اور ہمیں ملک دشمن عناصر کی فہرست میں شامل کردیتے ہیں۔

تحریک انصاف کے مرکزی سیکرٹریٹ کے ڈی سیل ہوتے ہی بجلی منقطع کردی گئی

 

حامد میر کہتے ہیں کہ یاد کیجئے! جب 2018ء میں عمران خان وزیر اعظم بنے تو ببانگ دہل جنرل باجوہ کے گیت گایا کرتے تھے۔ ہم نے اگر کہیں یہ رائے دے دی کہ باجوہ صاحب کی مدتِ ملازمت میں توسیع نہیں ہونی چاہیے تو تحریک انصاف والے سوشل میڈیا پر ہمارے خلاف وہ طوفان برپا کرتے کہ صحافیوں کی عالمی تنظیموں کو ہمارے زندگی کی فکر پڑ جاتی۔ 2018 کے انتخابات میں دھاندلی کے خلاف آواز اٹھانے پر مسلم لیگ ن ہم سے خوش اور تحریک انصاف ناراض ہوتی تھی۔ 2024ء کے انتخابات میں دھاندلی کے خلاف بات کرنے پر مسلم لیگ ن ہم سے ناراض اور تحریک انصاف خوش ہوتی ہے۔ تحریک انصاف کے دور حکومت میں میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے نام سے ایک قانون کے ذریعہ میڈیا کے خلاف خصوصی عدالتیں قائم کرنے کا منصوبہ سامنے آیا تو ہم نے اس منصوبے کو آزادی صحافت کے خلاف ایک سازش قرار دیا۔ اس وقت شہباز شریف اور مریم نوز نے میڈیا کے خلاف عدالتیں قائم کرنے کی شدید مخالفت کی۔ اب شہباز شریف وزیر اعظم اور مریم نواز وزیر اعلیٰ پنجاب بن چکے ہیں۔ پنجاب اسمبلی سے پچھلے دنوں ہتک عزت کے خلاف ایک قانون منظور کرایا گیا جس کے تحت فوری سماعت کے لئے خصوصی عدالتیں قائم کی جائیں گی۔ ان عدالتوں کے ججوں کی تقرری بھی حکومت کرےگی۔ گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر اور پیپلز پارٹی کے کچھ دیگر رہنما اس نئے قانون پر نظرثانی کا مطالبہ کر رہے تھے لیکن گورنر پنجاب کی عدم موجودگی میں قائم مقام گورنر ملک محمد احمد خان نے اس قانون پر دستخط کردیئے۔ اب اس نئے قانون کو عدالتوں میں چیلنج کردیا گیا ہے۔ ہم کل بھی آزادی صحافت کے خلاف قانون سازی کی مزاحمت کر رہے تھے اور ہم آج بھی مزاحمت کر رہے ہیں لیکن قانون بنانے والوں کے نام اور کردار بدل گئے ہیں۔ ہتک عزت کا قانون پاکستان کے عام آدمی کا مسئلہ نہیں ہے۔ اس قسم کے قوانین کا مقصد صرف اور صرف صحافیوں کا بازو مروڑنا ہے اور ان کے ہاتھ میں زنجیریں پہنانا ہوتا ہے۔

حامد میر کہتے ہیں کہ پیکا قانون کے تحت عمران خان کے خلاف تو انکوائری بھی ہو سکتی ہے اور ان کے خلاف غداری کا مقدمہ بھی قائم کیا جاسکتا ہے لیکن اگر میرے جیسا کوئی صحافی اسی پیکا قانون کےتحت ایف آئی اے کو درخواست دے تو معاملہ آگے نہیں بڑھتا۔ وہ کہتے ہیں کہ کل کو اگر تحریک انصاف دوبارہ حکومت میں آگئی تو شاید وہ بھی آزادی صحافت کے خلاف نت نئے قوانین بنائے گی اور پھر مسلم لیگ ن آزادی صحافت کی علمبردار بننے کی کوشش کرے گی۔ ہم تو وہیں کھڑے رہیں گے جہاں پہلے سے کھڑے ہیں لیکن اب ہمیں پاور پالیٹکس کرنے والے سیاست دانوں کے بارے میں اپنا رویہ تبدیل کرنا چاہئے اور ان کی منافقت کا پردہ چاک کر دینا چاہئے۔

Back to top button