PTI کے شرپسندوں نےعلیحدہ پاکستان کا نقشہ کیوں جاری کر دیا

سینئرصحافی شکیل انجم نے کہا ہے کہ 9 مئی کی شر پسندی سے سبق حاصل نہ کرنے والی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو 1971 جیسے سانحہ کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔جس کی تیاریوں کے آثار محسوس ہونے لگے ہیں، مکتی باہنی کی طرز پر بغاوت کی آئندہ تحریک کا آغاز دھیمے انداز میں سوشل میڈیا پر کیا جاچکا ہے۔جس کی مثال تحریک انصاف کے باغیانہ ذہنیت کے حامل گروہ کی جانب سے سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کی جانے "آزاد خطے” کی آئینہ دار خواہش ہے۔ اپنے کالم میں شکیل انجم کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کی صفوں میں تخریبی سیاست پر ایمان رکھنے والے شرپسند عناصر کی جانب سے پاکستان اور سیکیورٹی اداروں کے خلاف سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مہم کے بعد اس سرکش گروہ کی مذموم خواہش ہے کہ انتخابات میں ناکامی کی صورت میں 1971 والے حالات پیدا کرکے ملک کے وجود کو مزید زخم زخم کرنے کی سازش پر عمل درآمد کیا جائے۔پاکستان کے وجود کودو لخت کرنے کے لئے بنگلہ دیش کی مکتی باہنی نے بغاوت کا اعلان کرتے ہوئے بھارتی فوج کی مدد حاصل کی تھی جبکہ عمران خان جیل میں ہونے کے باوجود پاکستان میں موجود 42 ہزار دہشت گردوں اور افغانستان کے مختلف پاکستان مخالف دہشتگرد تنظیموں کے ساتھ خیبر پختونخوا میں اپنی اکثریت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے 1971کی سیاہ تاریخ دہرانے کی اہلیت اور صلاحیت رکھتے ہیں ک اپنی اس صلاحیت کا مظاہرہ وہ 9 مئی اور اس سے قبل 2014 میں عالمی ریکارڈ یافتہ دھرنے کی صورت میں مزاحمتی سیاست کے طور پر کر چکے ہیں . ان دونوں مزاحمتوں میں فرق یہ تھا کہ دھرنا سیاست کے دوران عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ کی پشت پناہی کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے سول نافرمانی کی صورت میں اعلان بغاوت کرکے حکومت کی جانب سے ردعمل کی شدت کا اندازہ کیا لیکن حکومت وقت تحریک انصاف کے اس باغیانہ طرز عمل پر ریاستی رٹ قائم کرنے کی بجائے اقتدار بچانے کی کوششوں میں لگ گئی جس کے نتیجے میں اس باغیانہ رویے کی حوصلہ افزائی ہوئی جس کا نتیجہ 9 مئی کی عملی بغاوت کی شکل میں نکلا اس کے برعکس اگر حکومت کی جانب سے پوری طاقت کے ساتھ ریاستی رٹ قائم کرنے کی کوشش کی جاتی تو 9 مئی کا اندہناک واقعہ پیش نہ آتا اور 9 مئی سے سبق حاصل نہ کرنے والی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو 1971 جیسے سانحہ کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار رہنا چاہئے. شکیل انجم لکھتے ہیں کہ تحریک انصاف کے باغیانہ ذہنیت کے حامل گروہ کی جانب سوشل میڈیا پر "پختونخواہ وطن کے ذخائر” کے عنوان سے اپ لوڈ کی جانے والی ایک تحریر میں تاثر دیا گیا ہے کہ خیبرپختونخوا بےشمار وسائل رکھنے والا خطہ ہے اس تحریری نقشے کے مطابق کرک سے گزشتہ 11 ماہ میں 85 لاکھ 43 ہزار بیرل تیل برآمد کیا گیا ہے۔ سوات میں بہترین زمرد کے 70 ملین قیراط کے ذخائر ہیں اور مارکیٹ میں 220 قیراط کی قیمت 4000 سے 6000 ڈالر تک ہے۔اس سال خیبر سے 40 ٹن فلورائٹ برآمد کیا گیا ۔ 11 ماہ میں کرک سے 65000 ملین ایم سی ایف گیس برآمد کی گئی ہے۔ مہمند میں اس سال 1935 ٹن نیفرائٹ نکالا گیا۔ مالاکنڈ میں 200 ملین ٹن، صوابی بلاک میں 100 ملین ٹن ماربل ہے۔ مہمند سے ساڑھے تیرہ لاکھ ٹن ماربل برآمد کیا جاتا ہے۔ چترال، جنوبی وزیرستان اور جنوبی پختونخوا میں سالانہ چھ لاکھ چالیس ہزار کلو چلغوزہ پیدا ہوتا ہے جس کی قیمت چین میں 18,000 روپے فی کلو ہے۔ کوہاٹ ٹنل سے روزانہ 30,000سے 35,000 گاڑیاں گزرتی ہیں اور ہر گاڑی کا کرایہ 80 سے 450 روپے ہے اور اس کا کنٹرول فوجی کمپنی NLC کے پاس ہے۔ جنوبی پختونخوا کے ڈھاکہ ضلع سے روزانہ 5000 ٹن کوئلہ برآمد کیا جاتا ہے۔ درہ آدم خیل سے ہر سال 350,000 ٹن کوئلہ نکلتا ہے۔) بونیر اور مردان میں 2 ارب ٹن ماربل موجود ہے۔ چترال میں ایک ارب ٹن ماربل موجود ہے۔ صرف کورما میں 20 لاکھ ٹن کوئلہ موجود ہے، اس کے ساتھ لوہے کی گیس اور اچھا ماربل بھی ہے۔ بالائی وزیرستان کے پیر گھر میں تانبے اور سونا کی بڑی مقدار موجود ہے۔ گومل کے پہاڑوں میں کوئلے کا بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ باجوڑ میں ہر سال 85000 ٹن ماربل، اور 1550 ٹن کرومائیٹ برآمد کیا جاتا ہے۔ پختونحوہ اور بلوچستان میں 700 کروڑ کے جواہرات ہیں جو ہماری سوچ سے بھی زیادہ قیمتی ہیں. عرب ممالک میں تیل کا ہر دس میں سے ایک کنواں کامیاب ہوتا ہے اور وزیرستان میں ہر تیسرا کنواں کامیاب ہوتا ہے۔میران شاہ میں اتنا تیل ہے جو پاکستان کی 40 سال کی تمام ضروریات پوری کرتا ہے۔. شمالی وزیرستان میں 36000 ملین ٹن تانبا موجود ہے ایک ٹن تانبے کی قیمت 7000 ڈالر ہے۔ تربیلا ڈیم سے 4000 سے 5000 میگاواٹ بجلی پیدا ہوتی ہے، اسے 250 بڑی فیکٹریوں میں استعمال کیا جا سکتا ہے اور تربیلا ڈیم سے پختونحوہ اربوں ڈالر کما سکتے ہیں۔ لکی مروت بٹنی کی ویلی آئل فیلڈ سے 1,000 سے 3,000 بیرل تیل اور 1 سے 5 ملین مکعب فٹ گیس برآمد کی جاتی ہے۔ ملاکنڈ کے دریاؤں سے 30 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے جس کی قیمت 1 سے 2 روپے فی یونٹ ہے۔” شکیل انجم پوچھتے ہیں کہ کیا قومی سلامتی کے اداروں کے علاوہ ایوان عدل کے وہ حلقے جو عمران خان کو الیکشن کے لئے انکی مرضی کا ماحول مہیا کرنے کے حق میں ہیں، مستقبل کے حالات سے بے خبر ہیں؟ شائد وہ اس سازش سے بھی لاعلم ہیں جس کے تحت ملک خاص طور پر خیبرپختون خواہ میں افراتفری اور بدامنی پیدا کرنے کا عمل شروع ہو چکاہے۔شاہراہ قراقرم پر مسافر بس پر بلا وجہ کی جانے والی فائرنگ جس میں 8 مسافر جاں بحق اور 16 زخمی ہوئے، اسی سازش کا آغاز ہو سکتا ہے۔

Back to top button