کمیٹیوں سے مستعفی PTI سینیٹرز مراعات چھوڑنے سے انکاری

پی ٹی آئی کے اراکین سینیٹ و قومی اسمبلی نے عمران خان کے احکامات کے خلاف بغاوت کر دی۔ عمران خان کی ہدایات کے برخلاف جہاں ایک طرف سینیٹ کی دو اہم قائمہ کمیٹیوں کے چیئرمینوں نے اپنی نشستوں پر چمٹے رہنے کا فیصلہ کیا ہے وہیں 6 قائمہ کمیٹیوں کی سربراہی سے دکھاوے کے لئے مستعفی ہونے والے پی ٹی آئی سینیٹرز نے بھی حاصل مراعات چھوڑنے سے صاف انکار کر دیا ہے۔
ناقدین کے مطابق بانی پی ٹی آئی عمران خان کا قومی اسمبلی و سینیٹ کی قائمہ کمیٹیوں سے استعفوں کا فیصلہ ایک بار پھر پی ٹی آئی کے گلے پڑتا دکھائی دیتا ہے کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی سیاست محض نعروں اور ڈرامائی اعلانات تک محدود ہو چکی ہے، جبکہ عملی طور پر اراکین اقتدار اور مراعات کے نشے سے باہر نکلنے کو تیار نہیں۔ مبصرین کے مطابق لمبی قید کی وجہ سے عمران خان کی پارٹی پر گرفت ہر گزرت دن کے ساتھ کمزور ہوتی نظر آتی ہے۔ اسی وجہ سے پارٹی رہنماؤں نے ذاتی مفادات کے تحفظ کیلئے بانی پی ٹی آئی کے احکامات کو پاؤں تلے روندنا اپنا وطیرہ بنا لیا ہے۔
خیال رہے کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان کی ہدایت پر یوں تو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی اور 5 قائمہ کمیٹیوں کے سربراہوں سمیت 51 اراکین اسمبلی نے استعفیٰ دے دیا ہے، تاہم پی ٹی آئی سے وابستہ 25 اراکین اسمبلی تاحال مختلف کمیٹیوں کی رکنیت سے مستعفی نہیں ہوئے۔ دوسری جانب پی ٹی آئی کے 2سینیٹر نے بھی سینیٹ کی قائمہ کمیٹیوں کی سربراہی چھوڑنے سے انکار کر دیا ہے اور وہ بدستور اپنے عہدوں پر براجمان ہیں جبکہ باقی ماندہ 6پی ٹی آئی چئیرمین مستعفی ہونے کے باوجود سرکاری مراعات پر مزے اڑاتے نظر آتے ہیں۔ حالیہ دنوں جب اس حوالے سے پی ٹی آئی سینیٹر علی ظفر سے بھی ان کیمرہ سوال ہوا تھا کہ اپ استعفے دینے کے باوجود سرکاری گاڑیاں کیوں استعمال کر رہے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ جیسے ہی ہمارے استعفے قبول ہونے کے نوٹیفکیشن ہوں گے ہم گاڑیاں واپس کر دیں گے یعنی اگر حکومت ان کے استعفے قبول نہیں کرتی یا اس میں تاخیر کرتی ہے تووہ سرکاری گاڑیوں اور مراعات کے مزے اڑاتے رہیں گے۔
سینیٹ سیکرٹریٹ ذرائع کے مطابق سینیٹ کی قائمہ کمیٹیوں کی چیئرمین شپ سے پی ٹی آئی کے استعفے صرف اعلانات تک محدود ہیں،عمران خان کےسینیٹ کی قائمہ کمیٹیوں کی چیئرمین شپ سے مستعفی ہونے کے فیصلے کے باوجود تحریک انصاف کے دو اہم چیئرمین تاحال اپنے عہدوں پر موجود ہیں جبکہ باقی چھ چیئرمین بھی بدستور سرکاری مراعات سے استفادہ کر رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق جہاں ایک طرف بعض اراکین نے تاحال رسمی طور پر بھی استعفے جمع نہیں کروائے وہیں متعدد پی ٹی آئی اراکین مستعفی ہونے کے باوجود سرکاری گاڑیاں، دفاتر اور دیگر سہولیات واپس کرنے سے انکاری ہیں۔ ذرائع کے بقول پی ٹی آئی کی طرف سے سینیٹ کی آٹھ قائمہ کمیٹیوں کے چیئرمینوں کے استعفوں کا اعلان کیا گیا تھا، تاہم صرف چھ اراکین کے استعفے ہی پارلیمانی لیڈر کے ذریعے جمع کرائے گئے ہیں جن کی تصدیق ہونا ابھی باقی ہے جبکہ قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے چیئرمین سینیٹر فیصل سلیم رحمان اور قائمہ کمیٹی برائے اقتصادی امور کے چیئرمین سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے تاحال استعفیٰ نہیں دیا۔سینیٹ ذرائع کے مطابق جمع کرائے گئے چھ استعفوں میں فیصل سلیم اور سیف اللہ ابڑو کے استعفے شامل نہیں تھے، جبکہ باقی چھ چیئرمینوں نے اگرچہ استعفیٰ دیا ہے، لیکن وہ بدستور سرکاری مراعات حاصل کر رہے ہیں۔
پاک سعود یہ دفاعی ڈیل : 50 ہزار فوجی سعودیہ جائیں گے
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق، قائمہ کمیٹیوں میں رہنا اراکین کے لیے نہ صرف طاقت اور اثرورسوخ کا ذریعہ ہے بلکہ ان کمیٹیوں کے ذریعے وہ اپنے حلقوں کے مسائل اجاگر کرنے اور ترقیاتی منصوبے لانے میں بھی کردار ادا کرتے ہیں۔ اس لیے استعفے دینا براہِ راست ان کے سیاسی مستقبل پر منفی اثر ڈال سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ متعدد اراکین عمران خان کی ہدایات کو نظرانداز کر کے اپنی ذاتی اور حلقہ جاتی سیاست کو ترجیح دے رہے ہیں۔تاہم بعض مبصرین اس معاملے کو پی ٹی آئی کے اندرونی انتشار اور تنظیمی کمزوری کی علامت قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق اگر قیادت کی ہدایات پر پارٹی کے رکن عمل نہ کرے اور کوئی باز پرس نہ ہو، تو یہ جماعتی ڈھانچے کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ ایک سینئر مبصر نے کہا:”پی ٹی آئی اس وقت دو محاذوں پر لڑ رہی ہے، ایک بیرونی دشمنوں کے خلاف اور دوسرا اندرونی بغاوت کے خلاف۔ اگر قیادت اندرونی نظم و ضبط قائم نہ رکھ سکی تو یہ جماعت تیزی سے اپنے انجام کو پہنچ جائے گی۔” ناقدین کے مطابق پی ٹی آئی کے 25 اراکین کا عمران خان کی ہدایات کو نظر انداز کرنا اس بات کی علامت ہے کہ پارٹی کے اندر قیادت اور اراکین کے درمیان اعتماد کا رشتہ کمزور ہوتا جا رہا ہے۔ یہ صورتحال عمران خان کے لیے ایک بڑا امتحان ہے، کیونکہ اگر انہوں نے اپنے اراکین کو قائل یا مجبور نہ کیا تو پارٹی کے ڈسپلن اور اتحاد کا بیانیہ شدید متاثر ہوگا۔ مبصرین کے مطابق آنے والے دنوں میں یہ بحران یا تو عمران خان کو مزید کمزور کرے گا یا پھر وہ اپنی جماعت پر گرفت مضبوط کر کے دوبارہ اپنی طاقت ثابت کریں گے۔
