تحریک انصاف کا اڈیالہ گروپ اور کوٹ لکھپت گروپ آمنے سامنے

حکومتی حلقوں کی جانب سے اس خدشے کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ اگر مذاکرات کی منتیں کرنے کے ساتھ ساتھ عمران خان حکومت مخالف تحریک چلانے کی دھمکیاں بھی دیتے رہے تو وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے حال ہی میں اپوزیشن کو دی جانے والی بات چیت کی دعوت منسوخ کر دی جائے گی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران خان کی ذہنی حالت ٹھیک نہیں اور شاید اسی لیے وہ ایک جانب حکومت سے مذاکرات کی خواہش ظاہر کرتے ہیں اور دوسری جانب اسی حکومت کے خلاف تحریک چلانے کی دھمکی بھی دیتے ہیں۔

حکومتی حلقوں کا کہنا ہے کہ اگر بانی پی ٹی آئی نے اپنی یہ روش برقرار رکھی تو ان کے ساتھ بات چیت کا رہا سہا امکان بھی ختم ہو جائے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ عمران چاہیں تو ایک مرتبہ پھر حکومت مخالف تحریک چلانے کی کال دے کر اپنا شوق پورا کر لیں جیسا کہ انہوں نے نومبر 2024 میں کیا تھا۔ یاد رہے کہ پچھلے برس احتجاج کی کال کا خاتمہ یوں ہوا تھا کہ اسلام اباد کے ڈی چوک سے بشری بی بی اور علی امین گنڈاپور اپنی جوتیاں اٹھا کر اور اپنے ورکرز کو پیچھے چھوڑ کر خیبر پختون خواہ کی جانب فرار ہو گئے تھے۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کی سب سے بڑی لڑائی اڈیالہ جیل اور کوٹ لکھپت جیل کے مکینوں کے درمیان شروع ہو چکی ہے، پی ٹی آئی کے سینیئر وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی اور دیگر 4 رہنماوں پر مشتمل کوٹ لکھپت جیل کی قیادت نڈھال اور مایوس ہو کر حکومت کے نام ایک خط لکھ کر مذاکرات کی اپیل کر چکی ہے۔ دوسری جانب عمران بھی حکومت کے ساتھ ڈیل کرنے کے لیے مذاکرات تو کرنا چاہتے ہیں لیکن اپنے ووٹرز کو یہ تاثر نہیں دینا چاہتے کہ وہ کمزور پڑ چکے ہیں۔ اس لیے وہ کبھی تو مذاکرات کی اجازت دیتے ہیں اور کبھی تحریک چلانے کی بات کرتے ہیں۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر عمران نے اپنی دوغلی پالیسی نہ چھوڑی تو وزیراعظم شہباز شریف مذاکرات کی پیشکش واپس بھی لے سکتے ہیں۔ ویسے بھی اگر اس مرتبہ انہوں نے حکومت مخالف تحریک چلانے کی کال دی تو ملک کے کسی شہر سے کوئی شخص گھر سے نہیں نکلے گا، ایسے میں عمران خان کو دوبارہ سے بات چیت کا ہی خیال آئے گا لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی ہو گی، لہذا انہیں اپنی خستہ حالی کا ابھی سے اندازہ کر لینا چاہئے اور تحریک چلانے کی دھمکیاں چھوڑ کر مذاکرات کا اغاز کرنا چاہیئے۔

تحریک انصاف کے ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی دس محرم کے بعد حکومت مخالف احتجاجی تحریک چلانے کے حوالے سے کنفیوژن کا شکار ہے۔ پارٹی کے ذمہ داران اس حوالے سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ پارٹی قیادت نے انہیں کوئی ہدایت نہیں دی۔ دوسری جانب خود پی ٹی آئی میں مذاکرات اور مفاہمتی عمل کے حوالے سے غور و خوض جاری ہے۔ بظاہر دیکھنے میں آ رہا ہے کہ پارٹی میں سیاسی سوچ و اپروچ کے حامل افراد موجودہ حالات کو احتجاج کے حوالے سے سازگار نہیں سمجھتے۔ ان کی رائے ہے کہ تحریک انصاف کو اپنے لئے سیاسی راستہ تلاش کرنا چاہئے تاکہ جیلوں میں قید بانی اور دیگر رہنماؤں کی رہائی کو یقینی بنایا جا سکے۔

تاہم عمران خان کی دوغلی پالیسی کی وجہ سے وہ لوگ بھی مایوس ہیں جو پس پردہ اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کی لیڈر شپ کے درمیان مفاہمت کا کوئی راستہ تلاش کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ انہیں بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ اسی لیے اب تحریک انصاف اڈیالہ گروپ اور کوٹ لکھپت گروپ میں تقسیم ہو چکی ہے۔ کوٹ لکھپت گروپ کے سرغنہ شاہ محمود قریشی کا یہ موقف ہے کہ پارٹی اپنی احتجاجی آپشن استعمال کر چکی ہے جس کا نتیجہ ناکامی کی صورت میں نکلا لہذا اب عمران خان کو ڈائیلاگ کا راستہ اپنانا چاہیئے۔ انہوں نے اپنا یہ موقف حکومت کے نام ایک خط میں بھی بیان کیا ہے۔

تحریک انصاف کے اپنے ہی گنڈاپور حکومت پر بجلی گرانے کو تیار

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عموماً سیاسی جماعتیں حکومت مخالف احتجاجی تحریک کے لئے سیاسی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلتی ہیں اور عوام کی سپورٹ حاصل کی جاتی ہے، لیکن تحریک انصاف کے نومبر 2024 کے دھرنے کی ناکامی کے بعد سے جتنی بھی احتجاج کی کالز دی گئیں وہ ناکامی سے دوچار ہوئیں۔ اسکی ایک بڑی وجہ پنجاب میں پی ٹی آئی کی لیڈر شپ نہ ہونا ہے کیونکہ وہ جیلوں میں بند یا منظر سے غائب ہیں۔ ویسے بھی پارٹی ذمہ داران اور اراکین اسمبلی بار بار کی احتجاجی کالز سے تھک چکے ہیں۔ اس مشکل صورت حال سے نکلنے کے لیے عمران خان کے پاس ڈائیلاگ ہی واحد راستہ ہے لیکن وہ بار بار احتجاج کی دھمکی دیکر اس آپشن کو بھی بند کرتے نظر آتے ہیں۔

Back to top button