پنجاب حکومت کی وفاق کو تحریک لبیک پر پابندی کی سفارش

حالیہ پرتشدد کارروائیوں کے بعد تحریک لبیک کا ٹھکنا یقینی ہو گیا ہے۔ تازہ پیشرفت کے مطابق پنجاب حکومت نے ٹی ایل پی کو ریاست مخالف انتہا پسند جماعت قرار دیتے ہوئے اسے غیر مؤثر بنانے اور اس پر پابندی عائد کرنے کیلئے وفاقی حکومت کو باقاعدہ سفارش کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ذرائع کے مطابق، یہ اقدام گزشتہ چند برسوں میں ٹی ایل پی کی جانب سے پرتشدد مظاہروں، قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں پر حملوں اور اقلیتی برادریوں کی عبادت گاہوں کی توہین جیسے سنگین واقعات کے تناظر میں کیا جا رہا ہے تاکہ آئندہ کسی کو قانون کی رٹ کو چیلنج کرنے کی جرات نہ ہو۔
خیال رہے کہ تحریک لبیک پاکستان پر پہلی بار اپریل 2021 میں پابندی عائد کی گئی تھی۔ یہ فیصلہ اُس وقت کیا گیا جب ٹی ایل پی نے فرانس کے سفیر کو ملک بدر کرنے کے مطالبے پر ملک گیر پرتشدد مظاہروں کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ ان احتجاجات کے دوران نہ صرف سرکاری و نجی املاک کو نقصان پہنچایا گیا تھا بلکہ پولیس اہلکاروں پر بھی حملے کیے گئے تھے جس سے امن و امان کی صورتحال شدید متاثر ہوئی۔ ان واقعات کے بعد وفاقی کابینہ نے انسدادِ دہشت گردی ایکٹ 1997 کے تحت ٹی ایل پی کو کالعدم تنظیم قرار دے دیا تھا۔ تاہم، تحریک لبیک کی شدید مزاحمت، اسٹریٹ پاور اور عوامی دباؤ کے نتیجے میں عمران خان حکومت نے چند ہی ماہ بعد نومبر 2021 میں ٹی ایل پی پر عائد پابندی واپس لے لی تھی، اور تحریک لبیک کو دوبارہ سیاسی دھارے میں شامل کر لیا تھا۔ اس واپسی میں ایک معاہدہ بھی شامل تھا جس کی تفصیلات آج تک مکمل طور پر منظرِ عام پر نہیں آ سکیں، لیکن یہی فیصلہ ریاست کے لیے بعد ازاں مزید مشکلات کا باعث بنا۔ واضح رہے کہ جب اپریل 2021 میں تحریک لبیک پاکستان (TLP) پر پابندی عائد کی گئی، اس وقت وفاقی حکومت تحریک انصاف (PTI) کی تھی، اور وزیرِ اعظم عمران خان تھے جبکہ نومبر 2021 میں،عمران خان حکومت نے ہی ایک معاہدے کے بعداس پابندی کو ختم کر دیا تھا۔
حکام کا کہنا ہے کہ انتہاپسند نظریات کو سیاسی ڈھال کے طور پر استعمال کرنے والی تنظیم تحریک لبیک کو مزید کھلی چھوٹ دینا ریاستی بالادستی اور قانون کی عملداری کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے۔ اسی لیے ٹی ایل پی کو بطور جماعت کالعدم قرار دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ نہ صرف ٹی ایل پی کی منظم تشدد کی سیاست کا خاتمہ ہو بلکہ آئندہ مذہب کے نام پر افراتفری پھیلانے کی کوششوں کو بھی سختی سے روکا جا سکے۔
خیال رہے کہ پنجاب حکومت نے ریاستی رِٹ اور قانون کی بالادستی قائم کرنے کے لیے وفاقی حکومت کو تحریک لبیک پر پابندی عائد کرنے کی سفارش کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پنجاب حکومت نہ صرف وفاقی حکومت کو انتہا پسند جماعت پر پابندی عائد کرنے کی سفارش کرے گی بلکہ صوبے میں نفرت انگیزی، اشتعال انگیزی اور قانون شکنی میں ملوث افراد کو بھی فوری گرفتار کیا جائے گا۔ اس حوالے سے منعقدہ اعلیٰ سطحی اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ پولیس افسران کی شہادت اور املاک کی تباہی میں ملوث رہنماؤں اور کارکنوں کیخلاف انسداد دہشتگردی عدالتوں میں مقدمات چلائے جائیں گے اور انتہا پسند جماعت کی قیادت کو انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے فورتھ شیڈول میں شامل کیا جائے گا۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ انتہا پسند جماعت کی تمام جائیدادیں اور اثاثے محکمہ اوقاف کے حوالے کیے جائیں گے جبکہ اس کے پوسٹرز، بینرز اور اشتہارات پر مکمل پابندی عائد ہوگی۔
اسٹیبلشمنٹ کی گود میں پلی تحریک لبیک خونی بلا کیسے بنی؟
اجلاس میں نفرت پھیلانے والی انتہا پسند جماعت تحریک لبیک کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس بند اور تمام بینک اکاؤنٹس منجمد کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔ اجلاس میں لاؤڈ اسپیکر ایکٹ کی خلاف ورزی پر سخت ترین کارروائی کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔
دوسری جانب پنجاب پولیس نے مریدکے میں پیش آنے والے واقعات کے بعد تحریک لبیک پاکستان کے خلاف کارروائیوں میں تیزی لاتے ہوئے اس انتہا پسند جماعت کو ’غیر مؤثر‘ بنانے کے عمل کا آغاز کر دیا ہے۔ انتہا پسند تنظیم کو لگام ڈالنے کے فیصلے کو اُن اہم اجلاسوں سے جوڑا جا رہا ہے، جن میں ٹی ایل پی کے سلسلہ وار پرتشدد احتجاج، قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں پر مہلک حملوں، اور مسیحی و احمدی عبادت گاہوں کی توڑ پھوڑ جیسے جرائم پر غور کیا گیا۔ جس میں شرکاء کو بتایا گیا کہ گزشتہ 3 برسوں کے دوران پنجاب بھر میں گرجا گھروں اور دیگر مذہبی مقامات پر 25 حملے ٹی ایل پی کے کارکنان نے کیے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر واقعات میں ٹی ایل پی کے کارکنان ملوث پائے گئے، جو مشتعل ہو کر توڑ پھوڑ کرتے، املاک کو آگ لگاتے اور بعض اوقات جانی نقصان کا باعث بنتے رہے ہیں۔ جس کے بعد اس بات پر اتقاق کیا گیا کہ تحریک لبیک اپنے قیام سے اب تک قانون نافذ کرنے والے اداروں اور غیر مسلم برادریوں کے لیے ایک سنگین خطرہ بن چکی ہے، قانون کی رٹ کو قائم کرنے کیلئے اس گروہ پر قابو پانا ناگزیر ہے جس کے بعد تحریک لبیک کے خلاف جاری کارروائیوں کو مزید تیز کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
پولیس حکام کے مطابق مریدکے واقعہ کے بعد ٹی ایل پی کے خلاف درج مقدمات کی تعداد 72 تک پہنچ گئی ہے، جن میں سے کم از کم 39 مقدمات لاہور میں درج کیے گئے ہیں،یہ گزشتہ چند برسوں میں پنجاب میں ٹی ایل پی کے خلاف درج ہونے والے فوجداری مقدمات کی سب سے بڑی تعداد بتائی جا رہی ہے، تحریک لبیک کی مرکزی قیادت تو روپوش ہو چکی ہے جبکہ ٹی ایل پی کی دوسری اور تیسری صف کے رہنما پولیس کی گرفت میں آ چکے ہیں۔ حکام کا خیال ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ اُن ٹی ایل پی رہنماؤں کو سزا دی جائے جو مذہب کے نام پر نوجوانوں کو اشتعال دلاتے ہیں۔ تاکہ ٹی ایل پی کو ماضی کی طرح پر تشدد اور غیر قانونی اجتماعات کے ذریعے ریاست کو بلیک میل کرنے سے روکتے ہوئے صرف سیاسی سرگرمیوں تک محدود کیا جا سکے۔ اس حوالے سے جہاں پنجاب بھر سے 27سو سے زائد ٹی ایل پی کارکنان گرفتار ہو چکے ہیں وہیں تحریک لبیک کے سربراہ سعد رضوی، ان کے بھائی انس رضوی اور ٹی ایل پی کی مرکزی قیادت تاحال روپوش ہے جن کی گرفتاریوں کیلئے چھاپوں کا سلسلہ جاری ہے جبکہ دوسری جانب ایف آئی اے نے لاہور میں ان کی رہائش گاہ پر چھاپے کے دوران بھاری ملکی و غیر ملکی کرنسی اور سونا برآمد ہونے کے بعد سعد رضوی کے خلاف منی لانڈرنگ کی تحقیقات بھی شروع کر دی ہیں۔
