پی ٹی آئی سیکرٹری جنرل سلمان راجہ کے خلاف پارٹی قیادت میں بغاوت
عمران خان کی جانب سے تحریک انصاف کے آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سینئیر وکیل سلمان اکرم راجہ کو پارٹی کا سیکرٹری جنرل بنانے پر پی ٹی آئی میں شدید ترین اختلافات پیدا ہو گے ہیں اور انہیں اس اہم ترین عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ زور پکڑ گیا ہے۔
تحریک انصاف کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ پارٹی کے اندر سینیئر قیادت پر مشتمل ایک بڑا دھڑا اس بات پر ناخوش تھا کہ بانی پی ٹی ائی نے سلمان اکرم راجہ جیسے نووارد کو سیکرٹری جنرل جیسا اہم ترین عہدہ سونپ دیا جب کہ پرانے لوگوں کو بری طرح نظر انداز کیا گیا۔ اب ان لوگوں نے یہ مہم شروع کر دی ہے کہ تحریک انصاف کا آئین سلمان اکرم راجہ کو پارٹی سیکرٹری جنرل تسلیم نہیں کرتا۔ ان کا کہنا ہے کہ پارٹی کے آئین میں ایسے شخص کی بطور سیکریٹری جنرل ’’نامزدگی‘‘ کی کوئی شق موجود نہیں ہیں جو اس سے قبل ’’پینل آف سیکریٹری جنرل‘‘ کی میں منتخب نہ ہوا ہو۔
تحریک انصاف کے سینیئر رہنماؤں کا اصرار ہے کہ پارٹی آئین کے مطابق سیکرٹری جنرل کا عہدہ خالی ہونے کی صورت میں صرف ایڈیشنل سیکرٹری جنرل ہی پارٹی سیکرٹری جنرل کا عہدہ سنبھال سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پارٹی کے منتخب سیکریٹری جنرل عمر ایوب کو نہ تو چئیرمین کی جانب سے ڈی نوٹیفائی کیا گیا اور نہ ہی سلمان اکرم راجہ کو عمر ایوب کے متبادل کے طور پر مقرر کیے جانے کا باضابطہ نوٹی فکیشن جاری کیا گیا۔
یاد رہے کہ عمر ایوب نے پارٹی کے اس اہم عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا تاہم، ان کا استعفیٰ باضابطہ طور پر منظور نہیں کیا گیا۔ پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین عمران خان کی ہدایت پر سلمان اکرم راجہ اس وقت سیکرٹری جنرل کے عہدے پر کام کر رہے ہیں لیکن قانوناً اس عہدے کو کوئی تحفظ حاصل نہیں۔ بلکہ یہ تحریک انصاف کے آئین کے خلاف اقدام ہے۔
تحریک انصاف کے سینیئر رہنماؤں کا کہنا ہے کہ پارٹی آئین کے مطابق، وائس چیئرمین، صدر اور چار مرکزی نائب صدور کی نامزدگی چیئرمین یعنی عمران خا کرے گا۔ یہ وہ عہدے ہیں جن پر چیئرمین بذریعہ نامزدگی پر کر سکتنا ہے۔ انکے علاوہ باقی تمام عہدے بشمول سیکرٹری جنرل بذریعہ انٹرا پارٹی الیکشن پُر کیے جائیں گے۔ پارٹی آئین کے مطابق پی ٹی آئی کے سیکرٹری جنرل، ایڈیشنل سیکریٹری جنرل، ڈپٹی سیکریٹری جنرل اور جوائنٹ سیکریٹری جنرل کے عہدوں پر انتخاب ’’پینل کی بنیاد پر‘‘ خفیہ رائے شماری کے ذریعے تین سال کیلئے ہوگا۔
تحریک انصاف کے آئین کے مطابق اگر پارٹی سیکرٹری جنرل کسی بھی وجہ سے اپنے فرائض انجام دینے سے قاصر ہو تو سیکریٹری جنرل کے عہدے کا مکمل کنٹرول ایڈیشنل سیکرٹری جنرل سنبھالے گا۔ پی ٹی آئی آئین میں سیکرٹری جنرل کے طور پر ’’نامزدگی‘‘ کی کوئی شق نہیں جس کا مطلب یہ ہوا ہے کہ سلمان اکرم راجہ کی بطور پارٹی سیکریٹری جنرل کوئی حیثیت نہیں اور وہ غیر قانونی طور پر اس اہم ترین عہدے پر فائز ہیں۔
جب سینیئر صحافی انصار عباسی نے اس حوالے سے بات کرنے کے لیے پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان سے رابطہ کیا تو انہوں نے تصدیق کی کہ سلمان اکرم راجہ کی بطور سیکریٹری جنرل تقرری کا نوٹی فکیشن جاری نہیں کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ پارٹی کا اندرونی معاملہ ہے اور اتنا اہم نہیں کہ میڈیا اس پر توجہ مرکوز رکھے۔ انہوں نے کہا کہ سلمان اکرم کا پارٹی کے سیکریٹری جنرل کے طور پر کام کرنا پارٹی کے اندرونی انتظام کا حصہ ہے۔
تاہم تحریک انصاف کے سینئر رہنماؤں کا اصرار ہے کہ یہ ایک سنگین غیر قانونی اور پی ٹی آئی کے آئین کی خلاف ورزی ہے جسے چیکنج بھی کیا جا سکتا یے۔ ان کے مطابق، پارٹی کا آخری مروجہ آئین مئی 2019ء کا تھا جس میں جون 2022 میں ترمیم کی گئی اور 9 جون 2022 کو انٹر پارٹی انلیکشن کرائے گئے۔ تاہم، الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن کو درست ماننے سے انکار کرتے ہوئے اسے سرٹیفکیٹ کا اجراء روک دیا۔ الیکشن کمیشن نے موقف اختیار کیا تھا کہ پی ٹی آئی کے آئین میں پارٹی کے آئین کے مطابق ترمیم نہیں کی گئی۔ الیکشن کمیشن نے انٹرا پارٹی انتخابات کی دستاویزات اور الیکشن کے انعقاد میں کئی دیگر تضادات کی بھی نشاندہی کی۔
عمران کے یوتھیے ٹرمپ کو پاکستانی صدر کیوں سمجھ بیٹھے؟
اس کے بعد الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو 2019ء کے مروجہ آئین کے مطابق 20؍ روز میں انٹرا پارٹی الیکشن کروانے کی ہدایت کی۔ الیکشن کمیشن کی ہدایت کے تحت، پی ٹی آئی کو 2019ء کے آئین کی بنیاد پر اپنے انٹرا پارٹی انتخابات کرانا تھے۔ دسمبر 2023ء میں پی ٹی آئی نے پارٹی انتخابات 2019 کے آئین کے مطابق ہی کرائے تھے۔ لیکن الیکشن کمیشن نے دوبارہ انتخابات کو قبول نہیں کیا اور 22 دسمبر 2023ء کو سرٹیفکیٹ جاری کرنے سے انکار کر دیا۔ لاہور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کے فیصلوں کو برقرار رکھا جس کے نتیجے میں پی ٹی آئی کے 2019ء کے آئین کو حتمی شکل مل گئی۔ 2019ء کے آئین کے تحت، پی ٹی آئی کی تنظیم دو سطحوں پر مشتمل ہے جس میں پارٹی سربراہ چیئرمین اور مرکزی پارٹی تنظیم کا سربراہ شامل ہے۔
اس آئین کے تحت تحریک انصاف کا چیئرمین تمام ارکان ووٹنگ کے ذریعے پانچ سال کیلئے منتخب کریں گے۔ اگر چیئرمین مستعفی ہو جائے تو اسے بذریعہ نامزدگی مقرر نہیں کیا جا سکتا۔ یہ عہدہ صرف منتخب ہو کر ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ چیئرمین کی موت یا استعفیٰ کی صورت میں، پارٹی کا سیکرٹری جنرل 30؍ روز تک کام کرتے رہیں گے اور چیئرمین کا انتخاب ان 30؍ روز میں کرایا جائے گا۔ لہٰذا یہاں پتہ چلتا ہے کہ تحریک انصاف میں سیکرٹری جنرل کا عہدہ کتنا اہم ہے جس پر ایک شخص کو غیر قانونی طور پر فائز کیا گیا ہے۔