سرکاری خزانے پر شاہی چھٹیاں،مریم حکومت نے وزیروں کی عیاشی کو قانون بنا دیا

پنجاب میں اب سیاست صرف اقتدار کا کھیل نہیں، عیاشی کا لائسنس بن چکی ہے۔ مریم نواز کی پنجاب حکومت نے صوبائی وزراء کیلئے شاہی مراعات کی نئی قسط جاری کر دی ہے جس کے تحت پنجاب کابینہ کے اراکین کو 1 ماہ چھٹی پر تنخواہ 74 ہزار کے بجائے 9 لاکھ 60 ہزار روپے ملے گی۔ وزراء کے لیو الاؤنس میں اضافے کی منظوری دے کر پنجاب حکومت نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ "جمہوریت” کے نام پر اشرافیہ کے مفادات کو تحفظ دینا ہی اس کی اصل ترجیح ہے۔

خیال رہے کہ مریم نواز کی پنجاب حکومت نے وزراء کی تنخواہ میں اضافے کے بعدان کے لیو الاؤنس میں بھی اضافے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ پنجاب حکومت نے منسٹرز، سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کا لیو الاؤنس تنخواہ کے برابر کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے پنجاب عوامی نمائندوں کے ترمیمی بل 2025 کی منظوری دے دی ہے۔ وزراء کے لیو الاؤنس میں اضافے بارے بل پنجاب اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں منظور کیا گیا، ترمیمی بل کے تحت پنجاب منسٹر سیلری اینڈ الائونس ایکٹ 1975 میں ترامیم کی جائیں گی، بعد از ترامیم چھٹی پر تنخواہ کی کٹوتی نہیں ہو گی۔ ترمیم سے قبل صوبائی وزرا کو 1 ماہ کی چھٹی پر 74 ہزار تنخواہ ملتی تھی۔تاہم اب پنجاب کے صوبائی وزراء کو ترمیم کے بعد کو 1 ماہ کی چھٹی پر ماہانہ 74 ہزار کے بجائے پوری تنخواہ 9 لاکھ 60 ہزار ملے گی، اس طرح پہلے سپیکر پنجاب اسمبلی کو 1 ماہ کی چھٹی پر 37 ہزار تنخواہ ملتی تھی۔ تاہم اب بعد از ترامیم سپیکر پنجاب اسمبلی کو 1 ماہ کی چھٹی پر 37 ہزار کے بجائے پوری تنخواہ 9 لاکھ 50 ہزار ملے گی، اسی طرح ڈپٹی اسپیکر کو پہلےایک ماہ کی چھٹی پر 37 ہزار تنخواہ ملتی تھی۔ تاہم اب ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی کو چھٹی پر ماہانہ 37 ہزار کے بجائے پوری تنخواہ 7 لاکھ 75 ہزار ملے گی۔

واضح رہے کہ اس سے قبل دسمبر میں وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کے دور اقتدار میں ہی عوامی نمائندگان کی تنخواہوں پر نظر ثانی بل کی منظوری کے بعد ایک ایم پی اے کی تنخواہ 76 ہزار روپے سے بڑھا کر4 لاکھ روپے کر دی تھی جبکہ صوبائی وزراءپر نوازشات کی بارش کرتے ہوئے وزیر کی تنخواہ ایک لاکھ سے بڑھ کر 9 لاکھ 60 ہزار، اسپیکر کی سوا لاکھ سے بڑھ کرساڑھے 9 لاکھ، ڈپٹی اسپیکر کی تنخواہ ایک لاکھ 20 ہزار روپے سے بڑھا کر پونے 8 لاکھ ،پارلیمانی سیکرٹری کی تنخواہ 83 ہزار روپے سے بڑھاکر 4 لاکھ 51 ہزار روپے، ایڈوائزر ٹو وزیر اعلیٰ کی تنخواہ ایک لاکھ سے بڑھاکر 6لاکھ 65ہزار روپے جبکہ وزیر اعلیٰ کے اسپیشل اسسٹنٹ کی تنخواہ ایک لاکھ روپے سے بڑھ کر 6لاکھ 65ہزار روپے کر دی تھی۔ تاہم اب وزراء  پر نوازشات کی مزید بارش کرتے ہوئے ان کے لیو الاؤنس میں کئی گنا اضافہ کر دیا ہے

پنجاب حکومت کی جانب سے صوبائی وزراء کے شاہانہ لیو الاؤنس میں اضافہ سخت عوامی تنقید کی زد میں ہے ناقدین کے مطابق مہنگائی، بے روزگاری، اور بجٹ خسارے سے دوچار صوبے میں وزراء، اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے لیے ایسی پرکشش چھٹیاں مختص کی جا رہی ہیں، جن کا تصور ایک عام ملازم بھی نہیں کر سکتا۔ ترمیمی بل 2025 کے تحت اب اگر کوئی وزیر، اسپیکر یا ڈپٹی اسپیکر مہینہ بھر چھٹی پر رہے گا، تو بھی اسے لاکھوں روپے پوری تنخواہ ملے گی۔ مبصرین کے مطابق سوال یہ نہیں کہ وزراء کو کتنا دیا جا رہا ہے، سوال یہ ہے کہ کس خدمت کے بدلے دیا جا رہا ہے؟ ناقدین کے مطابق یہی وہ پنجاب ہے جہاں اسپتالوں میں دوائیں نہیں، سکولوں میں اساتذہ نہیں، کسانوں کو پانی نہیں، اور نوجوانوں کو روزگار نہیں۔ لیکن وزراء کے لیے عوامی پیسوں پر عیاشیوں کا پورا سامان کیا جا رہا ہے۔ تجزیہ کاروں کا مزید کہنا ہے کہ کیا یہی "عوامی نمائندگی” ہے؟ یا پھر یہ بھی اقتدار کی وہ پرانی بیماری ہے جس میں مراعات صرف اقتدار کے ایوانوں کے دروازے کھٹکھٹاتی ہیں اور عوام بھوک اور لاچارگی کی زندگی گزارنے پر مجبور رہتے ہیں۔

مبصرین کے مطابق تنخواہوں کے بعد الاؤنسز میں ہوشربا اضافے پر عوامی تنقید کے جواب میں اظہار شرمندگی ی بجائے حکومت کی جانب سے دلیل دی جا رہی ہے کہ چونکہ تنخواہیں بڑھ گئی ہیں، لہٰذا چھٹیوں کا الاؤنس بھی بڑھانا "ضروری” تھا۔ گویا، اب "عیاشی کے تسلسل” کو قانون کا لبادہ پہنا کر عوام کو خاموش کرایا جا رہا ہے۔ یعنی اب عوام کے ٹیکس سے تنخواہیں لینے والے نام نہاد "عوامی نمائندے” قانون کے نام پر چھٹیوں میں بھی لاکھوں بٹوریں گے یعنی کام کرو یا نہ کرو، خزانے کا نلکہ کھلا رہے گا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق مریم نواز حکومت کی جانب سے یہ فیصلہ ایسے وقت میں آیا جب بجٹ میں عوام کو ٹیکسوں کے بوجھ، سبسڈی میں کٹوتیوں، اور مہنگائی کے طوفان کا سامنا ہے۔ ان حالات میں عوام یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ جب وزراء چھٹیوں میں کام نہیں کریں گے تو پوری تنخواہ کس منہ سے لیں گے؟ اور اگر عوام کی خدمت ہی اصل مقصد ہے، تو چھٹیوں پر شاہی مراعات کیوں؟

ناقدین کے مطابق ایوان میں منظور ہونے والا "پنجاب عوامی نمائندگان ترمیمی بل 2025” دراصل مفاد پرست سیاستدانوں کی جانب سے اپنے لیے خزانے کے دروازے مزید کھولنے کا عمل ہے۔ جو کبھی چھٹی پر جا کر آدھی تنخواہ لیتے تھے، اب مکمل 9 لاکھ روپے سے زائد تنخواہ لے کر ایئرکنڈیشنڈ کمروں میں ’آرام‘ کریں گے، اور عوام بجلی کے بل، دوائی اور آٹے کے لیے قطاروں میں خوار ہوتے رہیں گے۔یہ کیسا نظام ہے جس میں غریب کو دن رات کام کے باوجود پیٹ بھر روٹی نہ ملے، اور وزیر صرف چھٹی پر بیٹھ کر لاکھوں روپے  لے جائیں؟ عوام کو بیوقوف بنانے کے لیے یہ دلیل دی جا رہی ہے کہ تنخواہوں کے بعد لیو الاؤنس بڑھانا "لازمی” تھا کیا یہ قانون سازی ہے یا لوٹ مار کا باقاعدہ منصوبہ؟ ناقدین کے بقول جب اسکولوں کی چھتیں گر رہی ہوں، اسپتالوں میں دوائیں نہ ہوں، تنخواہوں سے محروم کلرک احتجاج پر ہوں، وہاں پر وزیروں کی چھٹیوں کو بھی لاکھوں میں تولنا کھلی سیاسی بے شرمی اور معاشی دہشت گردی ہے۔ یہی وہ پنجاب حکومت ہے جس نے کفایت شعاری کے دعوے کیے، عوامی خزانے کو امانت کہا  اور آج وہی لوگ چھٹیوں میں بیٹھ کر "پوری تنخواہ، بغیر کام کے” وصول کرنے کے لیے قوانین بدل رہے ہیں۔ اگر یہی "عوامی خدمت” ہے، تو پھر ظلم کی تعریف کیا ہوگی؟

Back to top button