کیا چور ورلڈ کپ ٹرافی چُرا کر چیمپئن قرار پا سکتا ہے؟

سینئر صحافی حماد غزنوی نے کہا ہے کہ عمران خان کی جانب سے برہنہ آئین شکنی کے بعد یہ جواز دینا کہ جو ہونا تھا ہو چکا لہذا اب آگے بڑھ کر نئے الیکشن کروائے جائیں، ایک سنگین مذاق ہے۔

روزنامہ جنگ کے لئے اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں حماد کہتے ہیں کہ ایک برہنہ آئین شکنی کے بعد عمران خان بہ ظاہر بڑی تیزی سے الیکشن کی طرف بڑھنا چاہ رہے ہیں، اُن کا استدلال ہے کہ چونکہ اپوزیشن بھی نئے الیکشن ہی چاہتی تھی، لہذا اب تنقید کیسی، یعنی وہ آئین کی بے حرمتی کو بھلا کر آگے بڑھا چاہتے ہیں۔ تاہم مسئلہ یہ ہے کہ اگر ان کی بات کو عملیت پسندی کا تقاضہ سمجھ کر آگے بڑھنے کا سوچا جائے تو پھر اگلا جنرل الیکشن بھی متنازع ہو گا جو ایک متنازع صدر کی زیر نگرانی ہو گا جو پہلے ہی وزیراعظم کی غیر آئینی ایڈوائس پر غیر آئینی طریقے سے قومی اسمبلی توڑنے کا مرتکب ہو چکا ہے۔

ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کو غیر ملکی سازش قرار دے کر مسترد کرنے کے حوالے سے حماد غزنوی ایک مزاحیہ قصہ بیان کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ دو پہلوانوں کے درمیان دنگل رکھا گیا، ایک پہلوان زیادہ طاقت ورنظر آ رہا تھا اور اس نے کُشتی کی تیاری بھی بھرپور کر رکھی تھی، مگر دوسرے پہلوان کا اصرار تھا کہ وہ سرپرائز دے گا اور کُشتی جیت جائے گا، پھر دنگل کا دن آ گیا، دونوں پہلوان اکھاڑے میں اترے، ابھی مقابلہ شروع بھی نہیں ہوا تھا کہ کم زور پہلوان نے اپنی نیکرسے پستول نکالی اور اپنے طاقت ور حریف کو گولی مار دی۔

حماد کے بقول عمران خان نے بھی کچھ ایسا ہی کیا ہے۔ لیکن کُشتی اور کرکٹ سے گِلی ڈنڈا تک ہر کھیل کے کچھ اصول ہوتے ہیں، ہار جیت کھیل کے اصولوں کے تحت ہوتی ہے، اس منطق کے اندر رہ کر دائو پیچ لڑائے جاتے ہیں، اگر کوئی چور ورلڈ کپ کی ٹرافی چُرا کر بھاگ جائے تو کیا اسے ورلڈ چیمپئن قرار دے دیا جائے گا؟
حماد غزنوی کے بقول 75 سال بیت گئے، لہکن ہم آئین کی حرمت ہی طے نہیں کر سکے، یعنی ہم نے کھیلنا کیا تھا اور جیتنا کیا تھا ہم تو آج تک کھیل کے اصول ہی نہیں بنا پائے،

1954کی اسمبلی ٹوٹنے سے یہ سلسلہ شروع ہو ا تھا جو آج کی تاریخ تک جاری ہے، اب تو ہم یہ اسکرپٹ اُلٹا بھی سنا سکتے ہیں، یہ فلم فلاپ ہو چکی ہے پھر بھی ہر کچھ سال بعد ہدایت کار ’شرطیہ نیا پرنٹ‘ کہہ کر اسے نمائش کے لیے پیش کر دیتا ہے، اور ہر دفعہ فلم کے آخر میں ہال ـ’ڈبہ ڈبہ‘ کے نعروں سے گونج اٹھتا ہے۔

سچ تع یہ ہے کہ سیاست کی لڑائی آئین سے باہر نہیں لڑی جاتی، یہ آئینی راستہ اپنانے والوں کی حوصلہ شکنی کے مترادف ہے، یہ تو TTP کا راستہ ہے، کیا سیاسی اکھاڑے میں داخل ہونے والے ہر پہلوان کی نیکر میں پستول ہونا چاہیے؟ یہ تو تباہی کا راستہ ہے، یہ سڑک جنگل کی طرف جاتی ہے، اور جنگل میں حیوان رہتے ہیں جو کسی عمرانی معاہدے کے تحت نہیں بلکہ ہر لمحہ طاقت ور کے خوف میں زندگی گزارتے ہیں، لیکن جنگل کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے۔

حماد غزنوی کہتے ہیں کہ اگر کچھ لوگ آئین ٹوٹنے پر بغلیں بجارہے ہیں تو اس میں ان کا کوئی قصور نہیں،ہماری تاریخ میں آئین شکنی کی ہر واردات پر رقاصوں کی ایک ٹولی ہماری اجتماعی شکست سے بے نیازمحوِ رقص نظر آتی ہے، ہم نے کب انہیں آئین اور قانون کا سبق پڑھایا ہے، ہمارے اسکولوں کے نصاب میں ایک سطر بھی ایسی نہیں ہے جس میں آئین کی حرمت کا بیان ہو یابے دستور سرزمینوں کے باسیوں کی خستہ حالی اور ذلت آمیز زندگیوں کا تذکرہ ہو بلکہ خان صاحب تو اپنے جلسوں اور تقریروں میں ملک کے پہلے آئین شکن ایوب خان کے دورِ حکومت کو مثالی قرار دیتے ہیں، بس یہ نہیں بتاتے کہ اُس مثالی دورِ حکومت کے اختتام پر ملک ٹوٹ گیا تھا۔

آج تک اس ملک میں کس آئین شکن کو سزا دی گئی ہے؟ اور آخرِکار جب ایک ڈکٹیٹر پرویز مشرف کو آئین توڑنے کی سزا سنائی گئی تو فیصلہ سنانے والے جج کو قومی ہیرو قرار دینے کے بجائے پاگل قرار دے دیا گیا اورآئین شکن ڈکٹیٹر کو فرار کروا دیا گیا، اس سارے منظر کو دیکھنے والے اگرآئین کی حکمت نہیں سمجھتے تو ان سے کیا گلہ کیا جائے۔’مطالعہ پاکستان‘ پڑھ کر تیار ہونے والی نسل کویہ ادراک ہی نہیں ہے کہ بے دستور خطے کے لوگـ’ شہری‘ کے سنگھاسن سے اتر کے دو پائے کی سطح پر آ جاتے ہیں۔

حماد کہتے ہیں کہ عمران خان پاکستان کے تقریباً ستر فی صد عوام کے دو سو نمائندوں کو غدار قرار دے چکے ہیں، فقط کسی سیاسی تقریر میں نہیں، بلکہ اسپیکر قومی اسمبلی کی رولنگ کے ذریعے، اسی الزام کے تحت اسمبلی توڑی گئی ہے۔ کون ضمانت دے گا کہ ان ـ’غداروں‘ کو الیکشن لڑنے دیا جائے گا؟ غداروں کو الیکشن لڑنے کی اجازت دینا تو واقعی آئین سے انحراف قرار دیا جا سکتا ہے، نگران وزیرِ اعظم تو اب آئینی طریقے سے لگ ہی نہیں سکتا، اور اگر اتفاقِ رائے سے نگران وزیرِ اعظم نہیں لگ سکتا تو کیا صعر عارف علوی عمران خان سے ہی کام جاری رکھنے کی درخواست کر سکتے ہیں؟ کیا الیکشن میں ای وی ایم مشینیں استعمال کی جائیں گی؟

سپیکر پنجاب اسمبلی کیخلاف تحریک عدم اعتماد جمع

سمندر پار پاکستانی ووٹ ڈالیں گے اور کس طرح، کس حلقے کے لیے ووٹ ڈالیں گے کیوں کہ یہ پہلو ابھی قانون میں طے نہیں ہے؟ اگر الیکشن کمیشن تین ماہ میں الیکشن کروانے سے معذوری کا اظہار کرے توکیا عمران خان ایک سال بھی نگران وزیرِ اعظم رہ سکتے ہیں؟ کیا ان سوالوں کا جواب کوئی صاحب نیم تیقن سے بھی دے سکتے ہیں؟ نہیں دے سکتے۔ اس لیے کہ ہم آئین کے منطقے سے باہر نکل گئے ہیں، اور آئینی دائرے سے باہر بے یقینی کے اندھیرے نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ اس سارے گنجل کا ایک انتہائی سادہ حل ہے، عملیت پسندی کا حقیقی تقاضہ بھی یہی ہےکہ آئین کے دائرے میں واپس لوٹ چلیں، کیونکہ جنگل کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے۔

Senior journalist Hamad Ghaznavi statement about Imran Khan | video

Back to top button