ارشد شریف کے قتل کا کُھرااب کس جانب جارہا ہے؟

وفاقی وزیرداخلہ رانا ثنا اللہ خان کی جانب سے کینیا میں سینئر صحافی ارشد شریف کو بہیمانہ طریقے سے قتل کی تصدیق کیے جانے کے بعد اب یہ سوال زیر بحث ہے کہ یہ قتل کس نے کروایا اور اس کے پیچھے کیا محرکات تھے۔ یاد رہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان نے ارشد شریف کے قتل کی ذمہ داری فوجی اسٹیبلشمنٹ پر ڈالنے کی کوشش کی تھی لیکن اب حکومتی ذرائع دعویٰ کر رہے ہیں کہ اس افسوسناک واقعے میں اسٹیبلشمنٹ کے اس دھڑے کا ہاتھ ہوسکتا ہے جو عمران کو دوبارہ برسراقتدار لانا چاہتا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ قاتل جانتے تھے کہ ارشد شریف اس وقت عمران خان کا اسٹیبلشمنٹ اور حکومت مخالف بیانیہ لے کر چل رہا ہے اور گرفتاری کے خوف سے ملک سے فرار ہوا ہے لہٰذا ایسے میں اگر اس کا قتل ہو جائے تو تو الزام یقیناً موجودہ اسٹیبلشمنٹ پر ہی آئے گا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اسی لئے قتل کے فوراً بعد عمران نے اسکا الزام موجودہ اسٹیبلشمنٹ پر لگا کر لانگ مارچ کا آغاز کر دیا تاکہ اس کا زیادہ سے زیادہ سیاسی فائدہ اٹھایا جا سکے۔

عمران کی جانب سے ارشد کے قتل کا الزام موجودہ فوجی اسٹیبلشمنٹ اور آئی ایس آئی پر لگائے جانے پر تبصرہ کرتے ہوئے ذرائع کا کہنا تھا کہ اصل سوال یہ ہے کہ اس قتل کا اسٹیبلشمنٹ کو فائدہ ہوا ہے یا نقصان؟ صاف نظر آتا ہے کہ عمران خان نے اس قتل کو فوجی اسٹیبلشمنٹ اور آئی ایس آئی آئی کو داغدار کرنے کے لیے استعمال کیا ہے لہٰذا اسٹیبلشمنٹ ایسا کام کیوں کرتی۔ تاہم ذرائع کا کہنا تھا کہ اس قتل میں اسٹیبلشمنٹ کا وہ دھڑا ضرور ملوث ہو سکتا ہے جو عمران خان کو برسر اقتدار لانے کی سر توڑ کوششوں میں مصروف ہے اور موجودہ فوجی قیادت اور حکومت کو گندا کرنا چاہتا ہے۔ فوجی ترجمان میجر جنرل بابر افتخار ایک پریس کانفرنس میں پہلے ہی یہ مطالبہ کر چکے ہیں کہ ارشد شریف کو ملک سے باہر بھجوانے اور پھر کینیا میں ٹھہرانے والے اے آر وائے نیوز چینل کے مالک سلمان اقبال کو شامل تفتیش کیا جائے۔ یاد رہے کہ سلمان اقبال کا عمران خان سے اور عمران کا لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید سے گہرا تعلق ہے جنہیں فوجی اسٹیبلشمنٹ کے مخالف دھڑے کا روح رواں سمجھا جاتا ہے۔

نوازشریف وہ آرمی چیف تعینات کریگا جواس کے خیال میں ان کی مدد کریگا

دوسری جانب وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے پہلے ہی کینیا میں ارشد شریف کی میزبانی کرنے والے بھائیوں وقار اور خرم پر قتل میں ملوث ہونے کا الزام عائد کر دیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ انہیں گرفتار کر کے باقاعدہ شامل تفتیش کیا جائے اور ان کا موبائل فون ڈیٹا حاصل کیا جائے۔ انکا کہنا تھا کہ ’یا تو ان دونوں نے ارشد شریف پر پہلے تشدد کر کے انہیں قتل کیا اور پولیس کی مدد سے گاڑی میں بٹھا کر ڈرامہ کیا اور یا پھر انہوں نے پولیس کے ساتھ مل کر چلتی گاڑی پر فائرنگ کروا کر انہیں قتل کروایا۔ رانا ثنا اللہ خان نے کہا کہ پاکستان سے کینیا جا کر ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات کرنے والی دو رکنی ٹیم کی تحقیق کے مطابق کینیا کی پولیس ایسے کاموں میں ملوث رہتی ہے۔رانا ثنا اللہ نے میڈیا کو بتایا ہے کہ ’قتل کا واقعہ ناکے سے 100 کلومیٹر دور مخالف سمت میں ہوا، جس کا اغوا والے معاملے سے کوئی تعلق نہیں۔ بتایا گیا کہ سڑک پر ناکہ لگا ہوا تھا، وہاں کوئی ناکہ نہیں لگا ہوا تھا۔ ہماری ٹیم اس جگہ پورا دن رہی، وہاں سے پورے دن میں صرف تین گاڑیاں گزریں۔ یہ ایک ایسی سڑک ہے جہاں ناکہ لگنے کا جواز نہیں بنتا۔ وزیر داخلہ کے مطابق ارشد کے جسم پر نشانات تشدد کے زمرے میں ہی آتے ہیں۔ بظاہر ان دونوں بھائیوں نے پولیس کے ساتھ مل کر جرم کو چھپانے کے لئےیہ سب کیا ہے۔ ان بھائیوں کا رابطہ کس کس کے ساتھ تھا؟ میرا خیال ہے کہ ہمارے وزیر اعظم کوکینیا کے صدر سے درخواست کرنی چاہیے کہ یا تو ہماری ٹیم کو تحقیقاتی ٹیم میں شامل کریں یا تحقیقات کروا دیں۔انہوں نے کہا کہ ’صورت حال کے پیش نظر تحقیقاتی ٹیم کو اب دبئی بھیجا جائے گا جہاں یہ ارشد شریف کے دبئی پہنچنے کےدس دن بعد ہی کینیا بھیج دیے جانے سے متعلق حقائق سامنے لائے گی۔ان کا کہنا تھا کہ ’کینیا میں ’آن ارآوئیول‘ ویزہ نہیں تھا بلکہ ان کا ویزہ وقار نے سپانسر کیا۔ نیوز چینل اے آر وائی کے طارق وسی نے وقار احمد کو کہا کہ ’یہ ہمارا بندہ ہے، اسے سپانسر کریں اور اپنے پاس رکھیں۔‘ طارق وسی اور سلمان اقبال دبئی میں موجود ہیں۔‘

Related Articles

Back to top button