معاشی زبوں حالی،مہنگائی سے رفاہی ادارے بھی متاثر

کراچی میں کام کرنے والے رفاہی اداروں کے چندے میں کمی آگئی۔ جس کے باعث فلاحی کاموں میں رکاوٹ بڑھ رہی ہے۔ بدترین معاشی حالات نے بڑے چھوٹے صنعت کاروں، تاجروں اور دوسرے شعبوں کے لوگوں کو فکرمند کر دیا ہے۔ متوسط اور غریب طبقہ دو وقت کی روٹی کے لیے پریشان ہے۔ ایسے میں رفاہی اداروں کی کارکردگی بھی متاثر ہو رہی آرہی ہے۔ جگہ جگہ سڑک کنارے، چوراہوں، علاقوں میں کام کرنے والے بوتھ غائب ہو رہے ہیں۔ ایمبولینس سروس کم ہو چکی ہے۔ دستر خوان سمٹ چکے ہیں۔ راشن، علاج معالجے، مالی امداد کا سلسلہ بھی کم ہوگیا ہے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی کے سبب چندا انتہائی کم ملنے پر بعض رفاہی ادارے پریشان حال بے روزگاروں کو جواب دے رہے ہیں۔ جبکہ رضاکاروں کو نکالنے کا سلسلہ بڑھ گیا ہے۔

ایک جانب روز افزوں مہنگائی ہے اور بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔ فیکٹریوں سے لوگوں کو بڑی تعداد میں نکالا جارہا ہے۔ دفاتر، کمپنیوں سے ملازمین کو فارغ کیا جارہا ہے۔ وہیں رفاہی ادارے بھی چندہ کم ملنے پر بے بس نظر آ رہے ہیں۔ شہر میں کام کرنے والے بڑے رفاہی ادارے کے سربراہ نے نجی چینل پر آکر فوری مدد کی درخواست کی ہے کہ فنڈز نہ ملنے سے دستر خوان پر کھانے کا سلسلہ متاثر ہو رہا ہے۔ چند روز کا راشن رہ گیا ہے۔

اسی طرح مالی امداد، ماہانہ راشن، علاج معالجے کی سہولت سمیت دیگر امور بھی بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ یہ سلسلہ گزشتہ چند ماہ سے شروع ہوا۔ تاہم اب صورت حال خراب سے خراب تر ہوتی جارہی ہے۔ بعض ادارے بیرون ملک سے آنے والی امدادی رقم کا سلسلہ بند ہونے پر پریشان تھے۔ اب بڑے بڑے صنعت کار اپنی فیکٹریاں بند کر رہے ہیں۔ وہ خود پریشان ہو کر لوگوں کو نکال رہے ہیں تو رفاہی کام کرنے والوں کو کیا چندہ دیں گے۔ یہ صورت حال بڑے بڑے تاجروں کی ہے کہ وہ بدترین معاشی صورتحال سے پریشان ہو کر اپنے ملازمین کو نکال رہے ہیں کہ ٹیکس ڈیوٹی بڑھ گئی ہے۔

ڈالر مسلسل اونچی اڑان اڑ رہا ہے۔ مہنگائی کا عفریت ہے کہ پر پھیلائے جا رہا ہے۔ کاروبار کم ہونے پر بلڈرز، پکوان سینٹرز والے، شادی ہالز والے، کار ڈیلرز، بڑے بڑے سرکاری، نجی افسران، کمپنیوں کے مالکان سب پریشان ہیں۔ دو سال تک کورونا کے سبب حالات سنبھل نہیں سکے تھے۔ اس کے باوجود مخیر حضرات نے طوفانی بارشوں اور سیلاب کی خراب صورت حال میں متاثرین کی دل کھول کر مدد کی۔ لیکن اب حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ مخیر حضرات بھی پریشان ہیں۔

ایک رفاہی ادارے کے سربراہ کا کہنا تھا کہ اگر شہر میں ایمبولینس سروس کے نیٹ ورک کو لے لیں تو پیٹرول، ڈیزل، مرمت، رضاکار، ڈرائیور کی تنخواہیں اور دیگر اخراجات پورے کرنا مشکل ہوگئے ہیں۔ ایمبولینس کے لیے بوتھ لگانا ہوتا ہے۔ وہاں اسٹاف بھی رکھا جاتا ہے۔ جبکہ نجی ایمبولینس والے پریشان حال لوگوں کو لوٹتے ہیں۔ اگر رفاہی ادارے والے اضافی رقم مانگیں تو شہری جھگڑا کرتے ہیں اور اداروں کے خلاف سوشل میڈیا پر بیان بازی کرتے ہیں۔ اس کی وجہ سے چندے پر خاصا اثر پڑتا ہے۔ اس لیے ایمبولینس سروس کم کر دی گئی ہے۔

دوسری جانب شہر میں یومیہ لاکھوں لوگ مرد، خواتین، بچے، دستر خوانوں پر کھانا کھاتے ہیں یا کھانا لے جاتے ہیں۔ ان میں کم تنخواہ والے افراد، گداگر، نشئی، مستحق، لاوارث، بیوائیں، یتیم، سرکاری اسپتالوں کے اندر مریض، تیماردار افراد سب شامل ہیں۔ بڑھتی مہنگائی کے باعث لوگ ناشتہ تک نہیں کر سکتے اور دوپہر، شام کا کھانا دستر خوانوں پر کھاتے تھے۔ اب دستر خوان ڈیفنس، نمائش چورنگی یا ادارے کے مراکز پر ایسی جگہ لگائے جاتے ہیں کہ مخیر حضرات گزرتے ہوئے چندہ زیادہ دیں۔ متوسط اور غریب آبادیوں میں نہیں لگائے جاتے کہ دونوں طبقے خود دو وقت کی روٹی کا انتظام مشکل سے کر سکتے ہیں۔ تو وہ زیادہ چندہ کیا دیں گے۔ بڑے چھوٹے رفاہی ادارے کم چندے سے پریشان ہیں۔ کوئی تعلیم کے حوالے سے خدمت کر رہا ہے۔ کوئی لاوارث بوڑھے، بچوں، خواتین، معذوروں کی خدمت کررہا ہے۔

بعض بڑے رفاہی اداروں کے اپنے اسپتال اور ڈسپنسریاں قائم ہیں۔ جہاں ڈاکٹر خدمات سر انجام دیتے ہیں۔ جبکہ شہر میں مہنگی ہونے والی دوائیاں اور معذوری کے آلات بیساکھی، واکر، وہیل چیئر اور دیگر اشیا مفت دی جاتی ہیں۔ میت بسوں، تابوت، غسل کفن سمیت دیگر کام کرنے والے ادارے پریشان ہیں کہ موجودہ حالات میں اداروں کو اپنے رضاکاروں کی تنخواہیں دینے کا مسئلہ ہو رہا ہے۔ ان سب کا نقصان براہ راست شہریوں کو ہو رہا ہے۔ اگر رفاہی اداروں کی یہی حالت رہی تو شہریوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہو گا۔

کیا انڈین معاشی ماڈل پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچا پائے گا؟

Related Articles

Back to top button