عمران کی گھڑی خریدنے والا ایف آئی اے سے بری

سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی جانب سے سابق وزیراعظم عمران خان کو تحفے میں دی جانے والی قیمتی گھڑی خریدنے کے دعویدار عمرفاروق ظہور کو بالآخر چار سال بعد وفاقی تحقیقاتی ادارے نے اپنی جڑواں بیٹیوں کے اغوا کے کیس سے سے بری کر کے مقدمہ خارج کر دیا ہے۔
لندن سے سینئر صحافی مرتضیٰ علی شاہ کی ایک رپورٹ کے مطابق لاہور کے جوڈیشل مجسٹریٹ نے فیصلہ دیا ہے کہ تاجراورلائبیریا کے خصوصی سفیرعمر فاروق ظہور، صدف ناز اور محمد زبیر کے خلاف اپنی ہی دو کمسن بیٹیوں کے اغوا کا مقدمہ وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اےکو لاہور میں درج نہیں کرایا جانا چاہئے تھا۔ لاہور کے جوڈیشل مجسٹریٹ غلام مرتضیٰ ورک نے اپنے حکم میں کہا کہ استغاثہ کے مطابق نوعمر بچیوں زینب اور زنیرہ کا مبینہ اغوا 14 سال قبل کراچی میں ہوا تھا۔
لہٰذا مقدمے کی کارروائی کا مناسب فورم لاہور نہیں، کراچی ہونا چاہئے۔ جج نے اپنے حکم میں کہا کہ لاہور کی اس عدالت کے پاس اس کیس کا فیصلہ کرنے کا کوئی دائرہ اختیار نہیں ہے، اس لئے اس کیس کی فائل تمام انکلوژرز اور شواہد کے ساتھ استغاثہ کو واپس کی جاتی ہے تاکہ اسے مناسب فورم کے سامنے پیش کیا جائے۔ ظہور نے شکایت کی تھی کہ ان کی سابق اہلیہ صوفیہ مرزا نے جون 2020 میں سابق وزیر احتساب شہزاد اکبر اور ایف آئی اے کے انتقال کر جانے والے ڈائریکٹر ڈاکٹر رضوان کے ساتھ مل کر سازش کی اور ان کے خلاف منی لانڈرنگ اور اغوا کے جعلی مقدمات درج کرائے تاکہ ان پر ایف آئی اے کو ان کے خلاف کارروائی کا موقع دیا جا سکے۔ متعلقہ مجسٹریٹ کے حکم نے ان کے موقف کی توثیق کی ہے کہ اکبر نے ایف آئی اے لاہور کو اس حقیقت کے باوجود کہ یہ ایجنسی کے دائرہ اختیار میں نہیں، اسے جھوٹے مقدمات درج کرنے پر مجبور کر کے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کیا۔
خیال رہے کہ مجسٹریٹ سابق ماڈل صوفیہ کے الزام سے متعلق کیس کی سماعت کر رہے تھے، جس میں انہوں نے شکایت کی تھی کہ ان کے سابق شوہرظہورشادی ٹوٹنے کے بعد اپنے دوستوں ناز اور زبیر کی مدد سے جوڑے کی نابالغ بیٹیوں کو ستمبر 2009 میں اغوا کرنے کے بعد دبئی لے گئے۔ حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ ناز کی درخواست کے مطابق کراچی میں 2009 میں ہونے والے مبینہ جرم کی ایف آئی آر کے اندراج میں 10 سال سے زائد کی غیر وضاحتی تاخیر ہوئی اور استغاثہ نے 9 گواہ پیش کئے لیکن وہ ملزم کے خلاف مجرمانہ مواد ریکارڈ پر لانے میں ناکام رہے۔
ناز نے استدعا کی تھی کہ اسے بغیر کسی وجہ کے جعلی اور فرضی کیس میں گھسیٹا گیا، اس لئے اس کے خلاف مقدمہ خارج کیا جائے۔ یہ سمجھا جاتا ہے کہ جج ورک کے فیصلے کے بعد باقی تحقیقات مکمل کرنے کے لئے کیس اب ایف آئی اے کراچی کو بھیجا جائے گا۔ ظہور احمد کے وکیل رانا ریحان نے نشاندہی کی کہ یہ معاملہ کافی عرصہ قبل 2013 میں سپریم کورٹ نے طے کیا تھا جب صوفیہ نے اپنے سابق شوہر سے دس لاکھ روپے کی ادائیگی قبول کی اور کیس نمٹا دیا۔ انہوں نے عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بنچ کے فیصلے کی طرف اشارہ کیا، جس کے تحت صوفیہ اور ظہور کے درمیان معاملہ اس مشاہدے کے ساتھ نمٹا دیا گیا کہ ماڈل کو ادائیگی کی گئی ہے۔ وکیل نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ کی طرف سے پہلے ہی طے شدہ معاملے پر فوجداری کارروائی کا آغاز شکایت کنندہ کی بدنیتی کو ظاہر کرتا ہے۔
خیال رہے کہ جون 2021 میں صوفیہ نے ظہور پر سونے کی اسمگلنگ میں ملوث ہونے، مختلف ممالک سے دھوکہ دہی سے اربوں روپے غیر قانونی طور پر حاصل کرنے، پاکستان کو بدنام کرنے اور پاکستان میں کاروبار کو دھوکہ دینے کے جھوٹے الزامات عائد کئے تھے۔ شہزاد اکبر معاملے کو سابق وزیراعظم عمران خان کی کابینہ میں لے گئے اور تحقیقات کی منظوری حاصل کی۔ وفاقی کابینہ کی جانب سے سمری کی منظوری کے فوراً بعد ایف آئی اے لاہور کے سربراہ ڈاکٹر رضوان نے ظہور کے خلاف کارروائی شروع کر دی، ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈال دیا گیا اور ایک ایف آئی آر میں قانونی تقاضے پورے کئے بغیر عدالت سے ناقابل ضمانت وارنٹ حاصل کر لئے گئے۔ ان غیر ضمانتی وارنٹ کی بنیاد پر ان کے پاسپورٹ اور سی این آئی سی کو بلیک لسٹ کر دیا گیا اور ظہور کی گرفتاری کے لئے نیشنل کرائم بیورو (این سی بی) پاکستان کی جانب سے انٹرپول کے ذریعے ریڈ نوٹس جاری کئے گئے۔ تاہم ثبوت نہ ملنے پر انٹرپول نے اپنے ڈیٹا بیس سے ظہور کا نام نکال دیا ہے اور ایف آئی اے کی انکوائری میں صوفیہ کی جانب سے لگائے گئے الزامات میں کوئی ثبوت نہ ملنے پر پاکستان میں درج جعلی مقدمات بھی بند کر دیئے گئے ہیں۔
خیال رہے کہ ظہور کا نام پاکستان کے قومی منظر نامے پر چند ہفتے قبل اس وقت سامنے آیا جب یہ بات سامنے آئی کہ وہ اس نایاب گھڑی کے مالک ہیں، جسے خان نے ولی عہد محمد بن سلیمان سے حاصل کرنے کے بعد کھلی مارکیٹ میں فروخت کیا تھا۔ تاجر نے ٹیلی ویژن پر نایاب گھڑی دکھائی اور اس بات کا ثبوت بھی پیش کیا کہ یہ وہی گھڑی تھی، جو سابق وزیراعظم نے فروخت کی تھی۔ انہوں نے کہا ہے کہ یہ گھڑی انہیں فرح گوگی نے فروخت کی تھی، جو خان کی اہلیہ بشریٰ بیگم کی بااعتماد اور قریبی دوست تھی۔ ظہور نے بتایا کہ فرح کا ان سے پہلا تعارف شہزاد اکبر نے جنوری 2020 میں کرایا اور ان سے ملاقات کی۔ انہوں نے الزام لگایا کہ بعد ازاں سابق وزیر احتساب نے صوفیہ کے مطالبات ماننے کے لئے انھیں بلیک میل کرنے کی کوشش کی اور جب انھوں نے انکار کیا تو ایف آئی اے نے انھیں بین الاقوامی سطح پر بدنام کرنے کے لئے ان کے خلاف جعلی مقدمات درج کر لئے۔ شہزاد اکبر اور صوفیہ دونوں نے اعتراف کیا ہے کہ ظہور کے خلاف پی ٹی آئی حکومت کے دوران مقدمات درج کئے گئے تھے لیکن انھوں نے دیگر الزامات کی تردید کی ہے۔