کیا سالانہ صدارتی خطاب میں ‘گو علوی گو’ کے نعرے لگیں گے؟

صدر عارف علوی کا پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے سالانہ لازمی خطاب 14 اگست کو قومی اسمبلی کے آخری پارلیمانی سال کا آغاز ہو جانے کے باوجود تاخیر کا شکار ہے جسکی بنیادی وجہ ایوان صدر اور وفاقی حکومت کے کشیدہ تعلقات ہیں۔ مخلوط حکومت کو یہ آئینی تقاضا پورا کرنے کی کوئی جلدی نہیں اور اسی لیے وزارت پارلیمانی امور نے ایوان صدر سے سالانہ صدارتی خطاب کے حوالے سے کوئی رابطہ نہیں کیا ۔ بڑا مسئلہ یہ ہے کہ صدارتی خطاب ہمیشہ وفاقی حکومت ایوان صدر کو فراہم کرتی ہے جس میں حکومتی کارکردگی کی تعریف کی جاتی ہے، لیکن موجودہ صورت حال میں صدر عارف علوی اپنی مرضی کی تقریر کرنا چاہیں گے اور عمران خان کی خواہش کے عین مطابق وفاقی حکومت کا رگڑا نکالیں گے، ایسے میں "گو علوی گو” کے نعرے بھی لگ سکتے ہیں لہذا وفاقی حکومت چاہے گی کہ صدارتی خطاب جتنا بھی لٹک جائے اتنا ہی بہتر ہے۔

آئین کے آرٹیکل 56(3) میں کہا گیا ہے کہ ‘قومی اسمبلی کے ہر عام انتخابات کے بعد پہلے اجلاس کے آغاز پر اور ہر سال کے پہلے اجلاس کے آغاز پر، صدر ایک ساتھ دونوں ایوانوں سے خطاب کریں گے۔ قومی اسمبلی کے سپیکر راجا پرویز اشرف پہلے ہی دو بار پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بغیر کوئی وجہ بتائے ملتوی کر چکے ہیں، اب یہ اجلاس 22 ستمبر کو ہونا ہے لیکن ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ حکومت صدر علوی کو مشترکہ اجلاس سے خطاب کے لیے مدعو کرے گی یا اس مقصد کے لیے کوئی خصوصی اجلاس بلائے گی۔

’کے ٹو‘پر ایک دن میں 40 سال سے دُگنا کچرا کیسے جمع ہوا؟

دوسری جانب ایوان صدر کے ذرائع کا کہنا ہے کہ انکے عملے نے صدارتی خطاب کا مسودہ پہلے ہی تیار کر لیا ہے جسے جلد منظوری کے لیے صدر عارف علوی کو بھیجا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ماضی کی روش کے مطابق انہوں نے تمام وزارتوں کو خطوط بھیجے تھے جن میں صدر کو گزشتہ پارلیمانی سال کی کارکردگی سے آگاہ کرنے کا کہا گیا تھا اور تقریر تمام وزارتوں سے ان پٹ حاصل کرنے کے بعد تیار کی گئی ہے۔ لیکن یاد رہے کہ ماضی میں صدارتی خطاب وزارت پارلیمانی امور تیار کرتی ہے اور ایوان صدر کا عملہ یہ کام نہیں کرتا۔ حکومتی ذرائع کے مطابق وفاقی حکومت کی کچھ اہم شخصیات یہ سمجھتی ہیں کہ عمران خان کے ایماء پر اپریل 2022 میں آئین شکنی کرتے ہوئے قومی اسمبلی توڑنے کا حکم نامہ جاری کرنے والے عارف علوی سے صدارتی خطاب کروانے کی بجائے ان کا مواخذہ کیا جانا چاہئے۔صدر عارف علوی اس سے قبل ماضی پی ٹی آئی حکومت کے تحت ریکارڈ تعداد میں صدارتی آرڈیننس جاری کرکے پارلیمنٹ کو کمزور کرنے کے الزام میں بھی شدید تنقید کا نشانہ بنے تھے۔

جب سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کے ممبران کی تقرری اور آرمی چیف جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق ان کے نوٹیفکیشن کو کالعدم قرار دیا تھا تو بھی اپوزیشن نے ان کے مواخذے کی قرارداد پیش کرنے کی دھمکی دی تھی۔ بعدازاں صدر علوی نے اس سال اپریل میں عمران کو عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد وزیر اعظم شہباز شریف سے حلف لینے سے انکار کر دیا تھا۔ اس کے علاوہ وہ تب ایک بار پھر تنقید کی زد میں آئے تھے جب انہوں نے انتخابی اصلاحات اور نیب ترمیمی بلوں کی قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظوری کے باوجود منظوری دینے سے انکار کردیا تھا۔ ایسے میں موجودہ حکومت سمجھتی ہے کہ عارف علوی کو صدارتی خطاب کا موقع دینا پارلیمینٹ کی ساکھ میں اضافے کی بجائے کمی کا باعث بنے گا۔

خیال رہے کہ عارف علوی ستمبر 2018 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے چار مرتبہ پارلیمنٹ سے خطاب کر چکے ہیں جب ان کی پارٹی حکومت میں تھی اور انہوں نے ہمیشہ اسکی کارکردگی کی تعریف کی۔ لیکن اس مرتبہ مثبت تقریر کا امکان نہیں۔ پیپلز پارٹی کے سینیٹر رضا ربانی کے مطابق پارلیمانی جمہوریت والے ممالک میں یہ روایت رہی ہے کہ صدر موجودہ حکومت کی جانب سے فراہم کردہ تحریری تقریر کرتا ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ صدر سیاق و سباق کو تبدیل کیے بغیر متن میں تبدیلیاں کر سکتے ہیں اور چونکہ یہ محض ایک روایت تھی اس لیے متعدد سابق صدور نے اپنی تحریری تقریریں کرنے کو ترجیح دی۔ اس کے بعد دونوں ایوانوں کے ارکان صدر کے خطاب پر عام بحث کرتے ہیں جسکے لیے آئین یا دونوں ایوانوں کے قواعد میں کوئی ٹائم فریم نہیں دیا گیا ہے۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر صدرعلوی کو خطاب کی دعوت دی جاتی ہے اور وہ موجودہ حکومت پر تنقید کے ممکنہ نشتر برسانے کا فیصلہ کرتے ہیں تو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ماضی کی طرح ایک بار پھر "گو وی گو” کے نعرے لگنے کا امکان بھی موجود ہے۔ حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے موقع پر صدارتی خطاب کے دوران عمرانڈو صدر ہونے کے ناطے عارف علوی اپنے گمرانڈو قائد عمران خان کی تشہیر کا چانس ضائع نہیں کریں گے، اور ہو سکتا ہے کہ وہ خان صاحب کا اقبال بلند کرنے کے لیے شہباز حکومت کو چارج شیٹ کر دیں۔ ایسی صورتحال وفاقی حکومت کے لیے شرمندگی کا باعث بن سکتی ہے چونکہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں صدارتی خطاب سننے کے لیے تمام ملکوں کے سفیر اور فوجی قیادت بھی موجود ہوتی ہے۔

Related Articles

Back to top button