ملبے میں موجود ” چنگاری "

تحریر : نصرت جاوید
بشکریہ : روزنامہ نوائے وقت
آگ بجھانے کے دوران جمع ہوئے ملبے میں ایک چھوٹی سے چنگاری بھی موجود رہے تو شعلوں کے دوبارہ بھڑکنے کا امکان برقرار رہتا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ مگر پیچیدہ ترین معاملات کو بھی سطحی انداز میں دیکھنے کے عادی ہیں۔ یہ لکھنے کے باوجود کھلے دل سے تسلیم کرتا ہوں کہ حالیہ پاک-بھارت جنگ کو ’’ایٹمی جنگ‘‘ کی صورت اختیار کرنے سے روکنے کے لئے ٹرمپ نے کلیدی کردار ادا کیا۔ جنگ 10مئی 2025ء کی شام یقینا بند ہوگئی۔ بھارت اگرچہ مصر ہے کہ اس کے برپا کئے ’’آپریشن سندور‘‘ میں صرف ’’وقفہ‘‘ آیا ہے۔ وہ ختم نہیں ہوا۔
بھارت جنگ بندی کو ’’وقفہ‘‘ نہ بھی ٹھہرائے تو پاک-بھارت کشیدگی کی وجوہات اپنی جگہ قائم ودائم ہیں۔ قیامِ پاکستان کے چند ہی ماہ بعد کشمیر کا تنازعہ اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ اس کے حل کے لئے پاکستان نہیں بھارت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل گیا۔ اسی نے امن کے نگہبان ادارے کو یقین دلایا کہ کشمیری عوام کی رائے جانچنے کا اہتمام ہوگا۔ اس کے نتیجے میں یہ فیصلہ سامنے آئے گا کہ کشمیری پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا بھارت کے ساتھ۔ کئی دہائیاں گزرچکی ہیں۔ مذکورہ وعدے پر عمل نہیں ہوا۔ ملبے میں چنگاری گویا اپنی جگہ موجود ہے۔
کشمیر کا قضیہ حل نہ ہونے کے باوجود بھارت نے اب سندھ طاس معاہدے کو معطل کردیا ہے۔ اس کی ’’معطلی‘‘ مستقل شکل اختیارکرگئی تو پاکستان بتدریج صحرا میں تبدیل ہونا شروع ہوجائے گا۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی بدولت ہمارے ہاں کا موسم غیر معمولی انداز میں گرم ہورہا ہے۔ سردی بس آکر چلی جاتی ہے اور آسمان سے برستی برف میں مسلسل کمی واقع ہورہی ہے۔ بے موسمی بارشیں اپنی جگہ عذاب کی صورت اختیار کررہی ہیں۔ ایسے عالم میں سندھ طاس معاہدے کی ’’معطلی‘‘ کسی بھی وقت پاک-بھارت جنگ کا ایک اور رائونڈ یقینی بنارہی ہے۔
فی الوقت البتہ میں پاکستان اور بھارت کے حوالے سے مزید تفصیلات میں الجھنا نہیں چاہتا۔پاک -بھارت جنگ رکوانے کے بعد امریکی صدر نے منگل کی رات گئے ایک ٹویٹ لکھا اور خوشی سے مغلوب ہوکر اعلان کردیا کہ اسرائیل اور ایران کی ’’12روزہ جنگ‘‘ بند ہوگئی ہے۔ موصوف کا دعویٰ ہے کہ ایران اور اسرائیل قاصدوں کے ذریعے انہیں پیغام بھجوارہے تھے کہ ہماری جنگ ختم کروادو۔ یاد رہے کہ ایران پر اسرائیل نے حالیہ جنگ درحقیقت اس کے ایٹمی پروگرام کو تباہ کرنے کے لئے مسلط کی تھی۔ جدید ترین میزائلوں کی مسلسل بارش کے باوجود وہ اپنے ہدف کے حصول میں قطعاََ ناکام رہا۔ بالآخر 20 اور 21 جون کی درمیانی رات امریکہ کے B-2 طیارے اڑے۔ ریڈار کو غچہ دینے والے یہ جدید ترین طیارے 30ہزار پائونڈ وزنی بارودی مواد کے ساتھ ایران کی فضا میں داخل ہوئے۔ انہوں نے وہاں کی تین ایٹمی تنصیبات کو جو زیر زمین کئی فٹ گہری خندقوں میں بنائی گئی تھیں ’’تباہ‘‘ کردیا۔ قصہ مختصر اگر امریکی دعوے پر اعتبار کریں تو جو اہداف اسرائیل کئی دنوں تک میزائلوں کی بارش کے باوجود حاصل نہ کرپایا امریکہ نے محض چند گھنٹوں کی بمباری سے حاصل کرلیئے۔ زیر زمین کئی برسوں کی محنت و لگن سے بنائی ایٹمی تنصیبات کی مبینہ تباہی کے بعد اسرائیل اور امریکہ کے پاس ایران پر فضائی حملے جای رکھنے کا جواز ختم ہوگیا۔ اسرائیل نے مگر ’’اہداف کے حصول‘‘ کے بعد جنگ بندی کا اعلان نہیں کیا ہے۔ امریکی صدر نے اس کی بجائے ایک ٹویٹ لکھ کر اس کا اعلان کیا۔
میری دانست میں ٹرمپ کی جانب سے جنگ بندی کے اعلان کو ایران بھارت کی طرح بددلی سے قبول کرنے کو مجبور محسوس کرے گا۔ ملبے میں چنگاری اپنی جگہ موجود ہے جو چند مہینوں یا سالوں کے بعد دوبارہ بھڑک سکتی ہے۔ جنگ بندی پر واقعتا عمل ہوگیا تو اسر ائیل میں نیتن یاہو کو سیاسی اعتبار سے بے پناہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ حکومت کے قیام کے لئے اسے ان سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر اتحادی حکومت بنانا پڑی تھی جو’’عظیم تر اسرائیل‘‘کی دیوانوں کی طرح خواہاں ہیں۔ زبور اور توریت میں بیان کردہ ’’اسرائیل‘‘ آج کے شام سے عراق تک پھیلے کئی علاقوں پر مشتمل ہے۔ ایران کم از کم ڈھائی ہزار سال پرانی تہذیب کا وارث ہے۔ وہ بھی ان علاقوں کو اپنی ’’سلطنت‘‘ کا حصہ شمار کرتا ہے۔ ان ہی علاقوں پر ترکی کی خلافت عثمانیہ نے بھی 600برس تک حکومت کی ہے۔ تاریخ کے اسیر ہوئے ان ممالک کے مابین ’’دائمی امن‘‘ کے قیام کے لئے امریکی صدر کا محض ایک ٹویٹ کافی نہیں ہے۔
فرض کیا ایران نے اسے تسلیم بھی کرلیا تو جلد یا بدیر اسے بھی نیتن یاہو کی طرح اپنے عوام کو جواب دینا ہوگا کہ کونسا ’’ہدف‘‘ حاصل کرنے کے بعد وہ جنگ بندی کو آمادہ ہوا۔ نیتن یاہو کے پاس یہ جواز موجود ہے کہ ایران کا ایٹمی پروگرام اس کی پیش قدمی کی بدولت چاہے امریکی طیاروں سے پھینکے بنکر بسٹر بموں کی بدولت لیکن تباہ توہوگیا۔ ایران کا ایٹمی پروگرام مگر واقعتا ’’تباہ‘‘ ہوگیا ہے تو ایرانی قیادت جنگ بندی کو آمادہ کیوں ہوئی؟۔ اس پروگرام کی تباہی کے بعد اسے تو ’’خودکش‘‘ بمبار کی طرح مشرق وسطیٰ میں موجود امریکی اڈوں اور اس کے اتحادیوں کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کرنا چاہیے تھی۔ اس نے مگر قطر میں قائم امریکی فوج کے ایک بڑے اڈے کی جانب چند میزائل پھینکے۔ اس کے نتیجے میں قابل ذکر نقصان نہیں ہوا۔ قطر نے مگر اس حملے کو اپنی ’’خودمختار‘‘ فضا میں مداخلت قرار دیا۔ سعودی عرب نے اس کی حمایت میں مذمتی بیان بھی جاری کردیا ہے۔ اس پہلو پر غور کریں تو ایران واسرائیل کے مابین جنگ بندی ہوگئی تب بھی ایران کے اپنے عرب ہمسایوں کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہی رہیں گے۔ عرب اور عجم کی تاریخی دشمنی بلکہ 2025ء کے برس مزید وحشت کے ساتھ نمودار ہوسکتی ہے۔
ایران: ہمیشہ خواہیم وطن را از دل و جانان
امریکی صدر مگر تاریخ سے قطعاََ لاتعلق شخص ہے۔ وہ ’’موجود‘‘ کی بنیاد پر سودے بازی (Deal)کا عادی ہے۔ دنیا کی واحد سپرطاقت کہلاتے ملک کا صدر ہوتے ہوئے وہ پوری دنیا کو اپنی رعایا کی طرح گردانتے ہوئے بادشاہوں جیسے فیصلے کرلیتا ہے۔ پاک-بھارت جنگ ر کوانے کے بعد تاہم اس نے ملبے میں موجود چنگاری یعنی مسئلہ کشمیر اور سندھ طاس معاہدے جیسے کلیدی مسائل کا حل ڈھونڈنے کے لئے کامل توجہ سے فالو اپ (Follow Up )کہلاتے ٹھوس اقدامات نہیں لئے۔ چنگاری کو گویا ملبے تلے سلگنے دیا ہے۔ ایران-اسرائیل کی حالیہ جنگ بھی اس نے اسی انداز میں ’’ختم‘‘ کی ہے۔