کیا PTI کو سیاستدانوں کی بجائے وکلا کے حوالے کرنا درست فیصلہ تھا؟

عمران خان کی گرفتاری کے بعد سے پچھلے دو برس میں پی ٹی آئی کو چلانے والی وکلا قیادت اپنے بانی کو رہا کروانے میں ناکامی کا شکار ہے لہذا اب یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا تحریک انصاف کو سیاست دانوں سے چھین کر وکلا کے حوالے کرنا ایک دانشمندانہ فیصلہ تھا؟ تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان تحریک انصاف پر مشکل وقت آیا تو وکلا کی گویا لاٹری نکل آئی۔ پارٹی کے سنجیدہ لوگوں کو کھڈے لائن لگا دیا گیا اور حلقہ انتخاب اور سیاسی تجربے سے محروم وکلا راتوں رات پارٹی رہنما بن گئے۔ بانی پی ٹی آئی عمران خان کی حکمت عملی شاید یہ تھی کہ موسم ناسازگار ہے اور ڈھیروں مقدمات پارٹی کے دامن سے لپٹ چکے ہیں، ایسے میں صفِ اول میں وکیل رہنماؤں کو بٹھا دیا تو قانون سے یہ خود نمٹ لیں گے۔چنانچہ کچھ وکیل حضرات الیکشن کے ٹکٹ لے اڑے اور بعض مرکزی عہدوں پر براجمان ہو گئے۔ جو زندگی میں کبھی کونسلر نہیں بن سکتے تھے، ایک حادثے کے نتیجے میں وہ پارلیمان میں جا پہنچے۔

وکلاء خود تو راتوں رات قومی رہنما بن گئے، لیکن عمران خان پر اڈیالہ جیل کے دروازے نہ کھل سکے۔تاہم یہاں یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی میں نو وارد ان وکیل رہنماؤں نے تحریک انصاف کو کیا دیا؟ وکلاء کی پارٹی میں شمولیت سے پارٹی کو فائدہ ہوا یا نقصان؟ مبصرین کے مطابق قانونی مسائل سے نمٹنے کے لیے ہر سیاسی جماعت نے وکلا کی ایک ٹیم رکھی ہوتی ہے۔ ان وکلاء کی خدمات کے بدلے میں انھیں عہدے اور وزارتیں بھی دی جاتی ہیں۔ تاہم یہ پہلی بار دیکھا گیا ہے کہ کہ کسی نے ساری سیاسی جماعت ہی اٹھا کر وکلا کے حوالے کر دی ہو۔ تاہم سوال یہ ہے کہ پی ٹی آئی کو اس گناہِ بے لذت سے کیا ملا کہ پارٹی قائد بیٹھا تو اب بھی اڈیالہ میں ہی ہے؟

تجزیہ کاروں کے مطابق تحریک انصاف یہ نکتہ نظر انداز کر گئی کہ بار کی سیاست اور قومی سیاست دو مختلف چیزیں ہیں۔ قومی سیاست کے تقاضے بار کی ننھی سی سیاست سے مختلف ہوتے ہیں۔ تاہم اب بانی پی ٹی آئی کی اس سیاسی غلطی کا انجام نوشتہ دیوار کی صورت میں سامنے دکھائی دے رہا ہے۔ مبصرین کے مطابق سیاست کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں اور جن لوگوں نے اس دشت میں عمر گزاری ہوتی ہے، ان کے تجربے کا کوئی نعم البدل نہیں ہوتا۔ یہاں صورت حال یہ ہے کہ قومی اسمبلی میں نواز شریف کو شکست دینے والے شہزادہ گشتاسپ خان جیسے بزرگ رہنما کی تحریک انصاف کو، کوئی خبر ہی نہیں اور نومولود رہنما پارٹی کے مختارِ کُل بنے پھرتے ہیں۔

ناقدین کا مزید کہنا ہے کہ سیاست محض قانونی موشگافیوں سے نمٹنے کا نام نہیں ہوتا بلکہ سیاست اس بصیرت کا نام بھی ہے جو عشروں عوام سے رابطے میں رہنے کے نتیجے میں حاصل ہوتی ہے۔ سیاست میں حالات کیسے ہی مشکل کیوں نہ ہوں، آخری حل قانون کی لایعنی بحثوں سے نہیں بلکہ سیاسی بصیرت سے نکلتا ہے، لیکن تحریک انصاف کا المیہ یہ ہے کہ اس نے پارٹی میں ایسے عناصر کو بالکل نظر انداز کر دیا، جن کے نام سیاسی بصیرت کی کوئی تہمت دھری جا سکتی تھی۔ مبصرین کے مطابق پی ٹی آئی کی اس غیر سیاسی حکمت عملی کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سیاست کی کوہ کنی وکیل رہنماؤں کے بس کی بات ہی نہیں کیونکہ ان وکلاء رہنماؤں کی باہمی چپقلش نے پارٹی کو تماشا بنا دیا ہے۔ ایک اڈیالہ جاتا ہے اور دوسرے پر اڈیالہ کے دروازے بند کرنے کی نوید سنا آتا ہے، پھر دوسرا جاتا ہے اور اعلانِ عام ہوتا ہے کہ اب پہلے والے پر دروازے بند ہو چکے۔ یہ سیاست نہ ہوئی، بازیچہ اطفال ہو گیا۔

تجزیہ کاروں کا مزید کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کی قیادت کیلئے وکلا کا انتخاب بھی سوالیہ نشان بن چکا ہے۔ بیرسٹر گوہر پارٹی کے چیئرمین ہیں، وہ ایک قابل وکیل ہیں مگر سوال یہ ہے کہ ان کا پارٹی کی چیئرمینی کا استحقاق کیا ہے؟سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجہ ہیں، جو ایک زمانے میں نواز شریف کے وکیل ہوا کرتے تھے۔ کوئی ہے جو سوال کرے کہ نواز شریف کا وکیل پارٹی کا سیکرٹری جنرل کس میرٹ پر بنا؟ پی ٹی آئی قومی سیاسی جماعت ہے مگر نہ اس کے چیئرمین کا کوئی حلقہ انتخاب ہے، نہ سیکرٹری جنرل کا۔ ناقدین کا وکلاء رہنماؤں کو پارٹی میں مرکزی عہدے دینے پر سوال اٹھاتے ہوئے مزید کہنا ہے کہ کیا یہ عمران خان کی افتاد طبع کا وہی مسئلہ تو نہیں، جو عثمان بزدار اور محمود خان جیسوں کو وزیراعلیٰ بنا دیتا ہے ۔کیا کوئی خوف ہے کہ کوئی مضبوط آدمی مسند پر بیٹھا تو مسئلہ پیدا کر سکتا ہے؟ ان کا مزید کہنا ہے کہ پارٹی میں حامد خان جیسے دیرینہ کارکنان بھی موجود تھے۔ وہ ہمیشہ نظر انداز کیوں کیے جاتے رہے؟ پیپلز پارٹی سے بابر اعوان آئے اور معتبر ٹھہرے، فواد چوہدری آئے اور معتبر قرار پائے، تاہم سوال یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے اپنے دیرینہ کارکن حامد خان میں کیا کمی تھی کہ نگاہِ یار ان پر نہ ٹھہر سکی؟

مبصرین کا مزید کہنا ہے کہ ڈھیروں وکیل رہنما اب پی ٹی آئی کی قیادت کرتے دکھائی دیتے ہیں، کوئی بانی پی ٹی آئی عمران خان کا ترجمان ہے، تو کوئی نمائندہ، کوئی مذاکراتی کمیٹی کا چئیرمین ہے اور کوئی خفیہ سہولت کاری کا تگہبان، غرضیکہ سب خوش ہیں اور سب مزے میں ہیں، ناقدین کے مطابق جن وکلاء رہنماؤں کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ گھر سے نکلتے ہی علاقہ غیر شروع ہو جاتا تھا وہ اب ٹاک شوز کی زینت بنتے ہیں، پارلیمان میں خطاب فرماتے ہیں اور پریس کانفرنسیں کرتے ہیں۔ تاہم عمران خان اب بھی اڈیالہ میں ہیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنے لمبے عرصے میں اگر عمران خان کو ٹھنڈی ہوا نہیں آ سکی تو سیاسی کارکنان کو نظر انداز کرتے ہوئے قانون دانوں کے یہ لشکر میدان میں اتارنے کا کیا فائدہ ہوا؟

تجزیہ کاروں کا مزید کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کی اصل قیادت کو یہ سمجھنا چاہیے کہ سیاست میں کچھ حرفِ آخر نہیں ہوتا۔  یہاں وقت کا موسم بدلتے دیر نہیں لگتی۔ تاہم حقیقت یہی ہے کہ سیاست کے موسم قانون کی موشگافیوں سے نہیں، سیاسی بصیرت سے بدلتے ہیں۔ تحریک انصاف کو واپس اپنی اساس کی طرف آنا ہو گا۔ کیونکہ پی ٹی آئی وکلا کی کوئی تنظیم نہیں کہ ان کے حوالے کر دی جاتی۔ تحریک انصاف ایک قومی سیاسی جماعت ہے۔ قومی سیاسی جماعت میں غالب رنگ وکلا رہنماؤں کی بجائے صرف سیاسی رہنماؤں کا ہونا چاہیے۔

Back to top button